پکار کر کہا کہ یہ بات تو آپ اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں کہ سب نے قصر کیا تھا ، حدیث میں اسے دکھائیے ، باتوں کو خلط نہ کیجئے ، اس پر سب لوگوں نے کہا کہ آپ چپ ہوجائیے، میں نے کہا آپ، لوگوں میں شک وشبہ اور مغالطہ نہ ڈالئے ، خیر وہ چپکے بیٹھ گئے ، نماز کا وقت ہوگیا ، نماز پڑھی اور آہستہ سے چلے گئے ۔
فتنہ پردازوں کا یہی وطیرہ ہے ، اختلاف مسالک اپنی جگہ ایک حقیقت ہے ، لیکن کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ دوسرے مسلک کو بالکل غلط کہے ، عوام جو علمی و تحقیقی دلائل ومسائل سے واقف نہیں ہوتے ، غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں اور اسلاف سے بدگمان ہوتے ہیں ، اور ان کے دین وایمان کے لالے پڑجاتے ہیں ، مگر منافقوں کی یہ قوم اسی کو کمال عمل سمجھتی ہے کہ کچھ لوگوں کو دینی مسائل میں بے اطمینانی میں مبتلاکردے۔
ایامِ حج میں قصر کا مسئلہ:
میں نے لوگوں کو بتایا کہ ایام حج میں منیٰ وعرفات میں قصر کرنا امام احمد اور غالباً امام مالک علیہماالرحمہ کے نزدیک مناسک میں سے ہے ، مگر امام ابوحنیفہ اور امام شافعی علیہماالرحمہ اسے سفر کی ضرورت قرار دیتے ہیں ۔(زبدۃ المناسک :۱۶۲) مناسک سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ، رسول اﷲ ا جب حج کے لئے تشریف لائے تھے ، تو مسافرت کی وجہ سے آپ نے قصر کیا تھا ، یہ قصر مکہ مکرمہ میں بھی تھا ، منیٰ وعرفات ومزدلفہ میں بھی تھا ، اگر قصر کا تعلق مناسک حج سے ہے ، تو مسجد حرام میں بھی قصر کرنا چاہئے ، حالانکہ ائمہ حرم قصر نہیں کرتے ، یہاں کے لوگ حنبلی ہیں مگر غیر مقلدیت کا غلبہ ہے ، اس لئے منیٰ وغیرہ میں قصر پرزور دیتے ہیں ۔
حضور اکرم ا اورخلفائے راشدین نے حج کے تعلق سے نہیں ، سفر کی وجہ سے قصرکیا تھا ، اس کی دلیل یہ ہے کہ سیّدنا عثمان غنی ص نے اپنے دورخلافت میں ایک سال منیٰ میں ظہریا عصر کی نماز چار رکعت پڑھائی ، اس پر حضرت عبد اﷲ بن مسعود ص کو سخت اعتراض ہوا ، لیکن ان کے امام ہونے کی وجہ سے ان کی اقتداء کی ، بعد میں امیر المومنین نے اپنا عذر بیان کیا کہ ہم لوگ مسافرت کی وجہ سے دورکعت پڑھا کرتے تھے ،مگر میں نے مکہ مکرمہ میں