دوسروں کی، اور نہ خود بیت اﷲ کی حرمت وعظمت کی ! دھکم دھکا کرکے حجر اسود کا بوسہ لے لینے کو حج کی فتح عظیم سمجھتا ہے ۔ بعض لوگ یہ کہتے ہوئے سنے گئے ، اگر حجر اسود کو بوسہ نہ دے سکے تو وطن کیا منہ لے کر جائیں گے ، لوگ کہیں کہ یہ کیا حج کیا ؟ بعض ملک کے لوگ شاید حجراسود کے بوسے کو حج کا رکن اعظم سمجھتے ہیں ، ان کے مرد ، ان کی عورتیں ، ان کے بچے سب اس کے بوسے کے لئے جان کی بازی لگائے رہتے ہیں ، بعض اوقات چیخم دھاڑ کی نوبت آجاتی ہے ، یہ خاکسار ایک بار طواف کے ہجوم میں سر جھکائے اپنے کو سمیٹے محو طواف تھاکہ اچانک بڑے زور سے چیخ کی آواز بلند ہوئی ۔بے اختیار نگاہ اوپر اٹھ گئی ، تو دیکھا ایک لڑکی لوگوں کے سروں پر اچھلتی اور پھسلتی جارہی ہے ، اس کو کسی نے زور سے اچھا ل دیا تھا ۔ میں نے إنا ﷲ پڑھا اور آگے بڑھ گیا ، اﷲ جانے اس کا کیا حشر ہوا؟
حالانکہ حجر اسود کا بوسہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے لئے جان جوکھم میں ڈالی جائے ، بے تکلف میسر آجائے تو سبحان اﷲ ! ورنہ دور سے ہاتھوں کی ہتھیلی اس کی طرف متوجہ کرکے اسے چوم لیجئے ،یہ استلام بوسے کا بدل ہے، اور یہی رسول اکرم ا کی تعلیم ہے ، اپنے کو بے موقع ایذا میں ڈالنا ، اور دوسروں کو ایذا دینادونوں حرام ہے ،ہجوم میں حجراسود کو بوسہ دینے کی کوشش میں دونوں غلطیوں کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے ، ایک مستحب کے حصول کے لئے یہ بات خلاف عقل بھی ہے اور خلاف شرع بھی ، بالخصوص جبکہ اس کا بدل بھی موجود ہے، اور وہ ہے دور سے ہاتھ اٹھاکر استلام! اس سے بھی وہی اجر حاصل ہوگا جو بوسہ دینے سے حاصل ہوتا ہے، اگر حاجی کو یہ استحضار ہوتا کہ مجھے اﷲ کی عبادت کرنی اور اسے راضی کرنا ہے تو وہ ہرگز اس دھکا پیل میں نہ پڑتا ، اصل تبرک تو رسول اﷲ ا کی تعلیم ہے ، ان متبرک اشیاء کی برکت بھی جو ظاہر ہوئی ہے ، اور جس کے لئے آدمی بے قرار رہتا ہے ، یہ حضور اکرم ا کے بتانے ہی سے ہے ۔ لہٰذا سب برکتوں کی اصل آپ کی تعلیم ہے ، اپنے نفس کے تقاضوں کو دبا کر ، لوگوں کے طعن سے صرف نظر کرکے ، کام وہی کرنا چاہئے جس کی تعلیم ہمیں رسول اکرم ا سے ملی ہے۔