پروگرام اپنے اختیار میں ، نہ ہمسفروں کا کچھ اندازہ کہ کس کس طرح کے لوگ ہوں گے ، پھر سب کا ایک جگہ اکٹھا ہونا، پھر ان کے ساتھ بشری حاجات وضروریات بلکہ رجحانات اور خواہشوں کا لگا رہنا ،اس سے سفر کی دشواری اور بڑھ جاتی ہے ، اس سفر میں آدمی جدال اور فسوق سے بچ نکلے ، ایک بڑا مجاہدہ ہے، اسی لئے رسول اﷲ ا نے سفر حج کو جہاد قرار دیا ہے۔
رسول اﷲ ا کے عزیز نواسے حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں ، کہ ایک آدمی نبی اکی خدمت میں آیا ، اور اس نے عرض کیا ، میں ایک بزدل آدمی ہوں اور کمزور بھی ہوں ، (پس جہاد کیسے کروں ؟) آپ انے فرمایا :
ھلم إلیٰ جہاد لاشوکۃ فیہ ۔ الحج۔ رواہ الطبرانی الکبیر والاوسط ورواتہ ثقات
تم ایسا جہاد کرو جس میں ( دوسرے ہتھیارتو کیا ) کانٹا بھی نہیں ہے ، یعنی حج کرو۔
امام نسائی کی روایت میں ہے ، حضرت ابوہریرہ صنے فرمایا کہ رسول اﷲ ا کا ارشاد ہے:
جہاد الکبیر والضعیف والمرأۃ الحج والعمرۃ ۔
بوڑھے ، کمزور اور عورت کا جہاد حج وعمرہ ہے۔ ( الترغیب والترہیب ،ج:۲، ص: ۷۱)
پس جب حج وعمرہ جہاد ہے تو اس میں دشواریوں اور پریشانیوں کا ہونا لازم ہے ، کوئی سفر حج یا سفر عمرہ مشقت اور الجھن سے خالی ہو، شاید ایسا نہ ملے ۔ جتنے لوگوں نے سفر حج کی رودادیں لکھی ہیں ، کم وبیش ان میں مشقتوں کا تذکرہ ہے ، آج کے دور میں تو وسائل وذرائع اس قدر سہل اور تیز رفتار دستیاب ہیں کہ جس سفر حج میں پہلے سالوں ، پھر مہینوں صرف ہوتے تھے ، اب آدمی چاہے تو دور دراز سے آکر ہفتوں اور دنوں میں حج کی تکمیل کرکے واپس جاسکتا ہے۔
لیکن اس سہولت کے بعد بھی دشواریاں ، پریشانیاں اور ناگواریاں اتنی پیش آتی ہیں کہ ناتجربہ کار آدمی بوکھلا کر رہ جاتا ہے ، یہیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حق تعالیٰ نے