آئے ، کچھ ناشتے کاسامان تھا، وہ میں نے پیش کیا ، چائے ممتاز بھائی نے بنائی ، اسی دوران کلکتہ کے مجیب بھائی اور قاری محمد ایوب صاحب آگئے ، کمرہ بزرگوں کے وجود سے چمک اٹھا ، مولوی ابوالاویس اصلاحی بھی آگئے ، کچھ دیر مجلس رہی ، پھر وہ لوگ تشریف لے گئے ۔
ساڑھے دس بجے عزیزم حافظ محمد عادل عمرہ سے فارغ ہوکر آئے ۔
مغرب کے بعد اپنے معمول کے مطابق تہہ خانے میں بیٹھا تلاوت کررہا تھا ، عشاء کی اذان میں دس منٹ باقی تھے کہ اچانک ایک جانا پہچانا چہرہ سامنے آیا ، مجھے پہچاننے میں قدرے تامل ہوا، تو خود ہی بتایا کہ جامع مسجد مغل سرائے کا امام ہوں ، ابھی ان کی طرف متوجہ ہوہی رہا تھا کہ ایک دوسرا چہرہ اور سامنے آیا ، یہ مولانا قاری اظہار الحق سلّمہ تھے ، جو کلکتہ سے آئے تھے ، قاری اظہار نے گورینی میں مجھ سے الاشباہ والنظائر پڑھی تھی ، مل کر بہت خوشی ہوئی ، چند روزپہلے ان کے ایک ساتھی مفتی اطعیواﷲ صاحب فیض آبادی ملے تھے ۔
عشاء کی نماز کے بعد میں اپنی بلڈنگ کی طرف آرہا تھا ، ایک صاحب روک کر باتیں کرنے لگے ، تھوڑی دیر میں مولانا ضیاء الدین اصلاحی ، ناظم دار المصنفین آتے ہوئے ملے ، معلوم ہوا تھا کہ مولانا حج کے لئے تشریف لائے ہیں ، ملاقات آج ہوئی ۔
۲۳؍ ذی الحجہ ۱۴۲۸ھ،یکم ؍جنوری۲۰۰۸ء:
آج جدہ سے غازی پور کے نسیم بھائی کے فرزند اختر سلّمہ کا فون آیا کہ آپ تیار رہئے ، میں آرہا ہوں ،آپ کو جدہ چلنا ہے ،میں تیار تو ہوا ، مگر بے دلی سے ، مکہ مکرمہ سے کہیں جانے کا جی نہیں چاہتا ، وہ عصر کے بعد آئے ، میں اور عادل سلّمہ ان کے ساتھ مغرب کے وقت جدہ پہونچے ، مفتی عبد الرحمن صاحب کو فون کیا کہ آپ بھی اختر کے یہاں آجائیں ، وہ کہیں پڑھاتے ہیں ، اختر نے کہا کہ میں وہیں آتا ہوں ، میں نے سوچا تفریح ہوگی ، عشاء پڑھ کر اختر کے ساتھ ہم دونوں چلے ، مفتی صاحب نے جو جگہ مقرر کی تھی ، وہاں موجودتھے ، انھیں لیا ، واپسی میں ایک عجیب وغریب مارکیٹ میں جانا ہوا ، اس میں مصنوعی درخت اور مصنوعی چٹانیں بنائی گئی ہیں ، نیچے پانی بہہ رہا ہے ، اوپر آسمانی فضا ہے ، بادل گرج رہے ہیں ،