حج کے بعد
حجاج بیت اﷲ کے قافلے فریضۂ حج اور زیارت مدینہ سے فارغ ہوہو کر اپنے اپنے وطنوں کو لوٹنے لگے ہیں ۔ اعزہ واقرباء اور وطن کے لوگ ان کا استقبال کریں گے، اعزاز واکرام کریں گے، ان سے دعائیں چاہیں گے، یہ لوگ ایک ایسے دیار سے لوٹ کر آ رہے ہیں ، جس کے تقدس وطہارت کا نقش ہر مسلمان کے دل پر جما ہوا ہے، وہاں رحمت الٰہی دنیا کی ہر جگہ سے زیادہ برستی ہے، وہاں زمین وآسمان ہیں تو ویسے ہی جیسے ہر جگہ ہیں ، مگر عالم غیب میں ان کی حیثیت جدا گانہ ہے، جن آنکھوں نے کعبۃاﷲ کی زیارت کی، گویا انھوں نے خود رب کعبہ کی زیارت کی، ان آنکھوں کانور کچھ اور ہی ہے۔ جو قدم طواف میں ، سعی میں اور عرفات و مزدلفہ ومنیٰ میں گردش وحرکت میں رہے، ان قدموں کی شان کچھ اور ہی ہے، جن ہاتھوں نے حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام کیا، جمرات پر کنکریاں ماریں ، ملتزم پر والہانہ وعاشقانہ انداز میں لپٹے، اور ہر مقامِ قبولیت پر دعا کے لئے اٹھے، ان ہاتھوں کی برکت کچھ اور ہی ہے ۔ حاجی اس طرح گھر لوٹ کر آرہا ہے ، جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ، معصوم بے گناہ ! زندگی کا یہ اتنا بڑا شرف ہے کہ جی چاہتا ہے کہ زندگی کا سفر اسی پر تمام ہو جائے ۔ اور یونہی بخشے بخشائے ، عصمت وبے گنا ہی کی سوغات لئے دربار قدس میں حاضری ہو جائے ۔
مگر ابھی کچھ مرحلے باقی ہیں ۔ حاجی اپنے گناہوں کا پشتارہ فنا کرواکے آیا ہے ، اب اس کی نئی زندگی کا آغاز ہو رہا ہے ،نئی ایمانی زندگی ، نئی روحانی زندگی ! اس نئی ایمانی