سفر حج ( ۱۴۱۷ھ،۱۹۹۷ء)
بقلم :ضیاء الحق خیرآبادی
نحمداﷲ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ وأصحابہ الذین
ھم نصروا الدین القویم، أما بعد!
بیت اﷲ کی زیارت، دیارِ حرم کی زمیں بوسی، فریضۂ حج کی ادائیگی ، دیارِ حبیب، آستانۂ رسالت، مسجدنبوی وروضۂ رسول کی حاضری وخاکروبی سے بڑھ کر کون سی آرزو ہے جو کسی قلب مسلم میں مچلتی ہوگی ، اس سے بڑھ کر کون سی تمنا ہوسکتی ہے جس پر قربان ہونا مقصد حیات سمجھا جاتا ہو؟ یہ وہ مقدس سرزمین ہے جس کی خاک کے ذروں کو سرمۂ بصیرت بنایا جاتا ہے، جس کے خاروں کو گلوں سے زیادہ محبت وپیار اور الفت واشتیاق سے اٹھالیا جاتا ہے، جس کی زیارت وسیاحت پر دفتر کے دفتر لکھے اور پڑھے جاتے ہیں ، جس کے دیدار کے لئے لاکھوں نگاہیں ترستی اور کروڑوں دل مضطرب وبے چین رہتے ہیں ۔ باری تعالیٰ کااس سیہ کار پر بے حد کرم واحسان اور فضل وانعام ہے اس نے بغیر کسی استحقاق کے دو مرتبہ اس مقدس سرزمین کی حاضری کی سعادت بخشی ۔ وﷲالحمد والمنۃ
پہلی مرتبہ تو اس وقت جب میری عمر صرف پندرہ ماہ تھی، یہ ۱۹۷۶ء کی بات ہے ، والدین مکرمین کے ہمراہ حاضری ہوئی ۔ اسی مناسبت سے لوگ مجھے ’’حاجی بابو‘‘ کہتے ہیں ، یہ عرفیت اس قدر غالب آئی کہ لوگ میرا اصل نام بھول گئے ۔ حد یہ ہے کہ میرے بڑے تو