جدہ میں اترنے کے بعد اتفاق سے امیگریشن کے مرحلے میں وہ میرے پاس ہی آبیٹھے ، تو تعارف ہوا ، کہنے لگے کہ میں نے جو مسائل بیان کئے وہ درست تھے ؟ میں نے کہا نہیں ؟ پھر وہ مجھ سے الجھنے لگے ، میں بحث نہیں کرنا چاہتا تھا ، اولاً سفر حج میں ہر شخص مفتی بننے کی کوشش کرتا ہے ، اور پھر یہ تو بریلوی ہیں ، ان کا تو طرۂ امتیاز ہی کج بحثی اور کٹ حجتی ہے ، لیکن وہ مصر ہوئے ، تو چند ایک باتیں میں نے عرض کیں ، جن کا ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا، تو کہنے لگے کہ
ملا آں باشدکہ چپ نہ شود
میں نے کہا کہ میں تو چپ ہی تھا ، آپ ہی نے بولنے پر مجبور کیا ، تو اس مصرعہ کو مجھ پر نہیں اپنے اوپر پڑھئے ، یہ کہہ کر میں دوسری طرف چلا گیا ، انھوں نے بھی کھسک جانے ہی میں عافیت سمجھی ، کہیں اور چلے گئے ، پھر دکھائی نہیں دئے۔
جہل کا اتنا زبردست غلبہ ہے کہ بتانے پر بھی احساس نہیں ، اپنی مرغی کی ایک ٹانگ پر اَڑے رہتے ہیں ، اسی لئے میں عموماً خاموشی اختیار کئے رہتا ہوں ، حالت احرام مولویت کے لئے ایک اچھا پردہ بھی ہے ، عوام کے حکم میں رہتا ہوں ، کوئی ظاہر کرنا چاہتا ہے تو انکار کردیتا ہوں ۔
اصل مسئلہ :
ہوائی جہاز میں پانی موجود ہوتا ہے ، بے تحاشا پانی گرانے کی ممانعت ہوتی ہے ، حجاج کرام کوئی رعایت نہیں کرتے ، اس لئے عملہ سختی سے منع کرتا ہے ، اس سے یہ سمجھنا کہ پانی پر قدرت نہیں ہے اس لئے تیمم کرنا جائز ہے ، درست نہیں ، تیمم کرنا بحالت موجودہ جائز نہیں ۔ ( فتاویٰ ہندیہ ، ج:۱، ص: ۲۸، وبدائع الصنائع ، ج:۱، ص: ۵۰)
ہوائی جہاز پر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی پوری قدرت ہوتی ہے ، قدرت ہوتے ہوئے فرض نماز بیٹھ کر پڑھنی ہرگز درست نہیں ہے ، اگر عملہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے ، تو اس سے قدرت ختم نہیں ہوتی ، اور یہ بھی مسئلہ ہے کہ جو مجبوری منجانب اﷲ نہیں ،