ہلال کے لحاظ سے ۱۰؍ ہے ، کیونکہ حج ۹؍ ذی الحجہ سہ شنبہ کو ہوا ہے ، تو ۳۰؍ ذی الحجہ سہ شنبہ کو ہوئی ، اور چہار شنبہ کو پہلی تاریخ، تو پنجشنبہ کو ۹؍اور جمعہ کو ۱۰؍ ہوئی ۔ ہم نے روزہ رکھا ، جمعہ کی نماز کے بعد مفتی عاشق الٰہی مہراج گنجی مل گئے ، ان کا ذکر میرے سابق مضمون میں آچکا ہے ، آج عشاء کے بعد انھوں نے مدعو کیا ، عصر کی نماز کے بعد قاری محمد ایوب اور مجیب بھائی کلکتوی سے ملاقات ہوئی۔
افطار کی بہار:
اہل مدینہ کو عاشوراء کے روزے کا بہت اہتمام ہوتا ہے ، بلکہ یہ لوگ پہلی محرم سے روزہ رکھنا شروع کردیتے ہیں ، اور افطار میں تو وہ رونق ہوتی ہے کہ ایمان تازہ ہوجاتا ہے ، ہم لوگ افطار سے آدھ گھنٹہ پہلے مسجد میں داخل ہوئے ، تو پوری مسجد میں افطاری کے دسترخوان بچھے ہوئے تھے ، اور ہر دسترخوان والا لوگوں کو نہایت محبت اور لجاجت سے دعوت دے رہا تھا ، ایک دسترخوان والے نے ہم لوگوں کو پکڑا ، ہم لوگ وہیں بیٹھ گئے ، افطاری میں کھجوریں ، زمزم، لبن زبادی( دہی) اور مخصوص قسم کی پاؤروٹی ہوتی ہے ، اس کے ساتھ چائے اور قہوہ کاانتظام ہوتا ہے ،دسترخوان پر لوگ دعاؤں میں مشغول رہے ، اذان ہوئی تو روزہ افطار کیا گیا ۔
عشاء کی نماز کے بعد مفتی عاشق الٰہی صاحب اپنے گھر لے گئے ، وہاں کھانا کھاکر جلد ہی ہم لوگ قیام گاہ پر واپس آگئے ، مفتی صاحب نے اپنی گاڑی سے پہونچایا، فجزاہ اﷲ خیر الجزاء
مغرب کی نماز کے بعد ابراہیم پور کے مولوی حفظ الرحمن صاحب سے ملاقات ہوئی ، یہ قباء میں رہتے ہیں ، انھوں نے پروگرام بنایا کہ صبح قباء آجائیے ، میرے یہاں ناشتہ ، اس کے بعد مسجد قباء کی حاضری! مولوی صاحب کی ڈیوٹی ۹؍ بجے سے ہے ، اس لئے پہلے ان کے یہاں جانا ہے ، تاکہ ڈیوٹی کے وقت تک وہ فارغ ہوجائیں ۔