اس کی قربانی ہونی تھی ، میرے سر مونڈنے کی خدمت عاد ل ہی کو انجام دینی تھی ، اور وہ قربانی سے پہلے نہ اپنا سر منڈوا سکتا تھا ، نہ میرا سر مونڈ سکتا تھا ، قربانی مفتی عبد الرحمن صاحب کے ذمے تھی ، انھیں فون کیا، تو انھوں نے بتایا کہ ۲؍ بجے قربانی کردی جائے گی ، چنانچہ دو بجے قربانی کی تصدیق کرلی ، پھر عادل سلّمہ نے میرے سر کے بال اتارے ، ایک بڑے میاں نے عادل کے سر کا حلق کیا ، اور اس نے ان بڑے میاں سمیت کئی لوگوں کا حلق کیا ،ا ﷲ کا شکر ادا کیا ،ا ب نہادھوکر عام روزمرہ کے کپڑے پہن لئے ۔
۱۱؍ ذی الحجہ:
آج ایام تشریق کا پہلا دن ہے ، فجر کی نماز کا وقت ابھی نہیں ہوا ہے ، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں ، کہ اذان کا وقت ہوگیا، میں کہہ رہا ہوں کہ مسجد خیف سے اذان کی آواز آتی ہے، جب وہاں اذان ہوگی ، تو یہاں بھی ہوگی ، اتنے میں ایک صاحب باہر سے خیمہ میں داخل ہوئے ، اور کہنے لگے کہ ابھی اذان میں دس منٹ باقی ہیں ، یہ کہہ کر انھوں نے تقریر شروع کردی کہ منیٰ اور عرفات ومزدلفہ میں امام چار رکعت والی نماز دورکعت پڑھاتا ہے ، لوگ کہتے ہیں کہ وہ مسافر ہوتا ہے ، یہ غلط ہے ، وہ حرم کا امام ہوتا ہے ، اور حج کے دنوں میں دو ہی رکعت ہے ، میں نے دیکھا کہ یہ خاموش رہنے کا موقع نہیں ، ابھی خیمہ والوں کو یہ شخص دو فرقوں میں تقسیم کردے گا ، میں نے بآوازِ بلند کہا کہ ہم لوگ حنفی ہیں ، اور احناف کے نزدیک مسافر کے علاوہ کسی کو قصر کرنے کی اجازت نہیں ہے ، اس لئے اس مسئلے کو یہاں مت چھیڑئیے ، وہ مصر تھے کہ میں بھی حنفی ہوں اور حقیقت بیان کرنا چاہتا ہوں ، میں نے پکارا ، آپ کو حقیقت کی کچھ خبر نہیں ہے ، خاموش بیٹھ جائیے ، وہ بار بار کہتے رہے کہ میری بات سن تو لیجئے ، اب کچھ اور لوگ بھی کہنے لگے کہ سن لیجئے ، میں نے کہا سننے کی ضرورت نہیں ہے ، تاہم سنائیے ، فرمانے لگے کہ رسول اﷲ ا نے اپنے آخری حج میں قصر کیا تھا ، میں نے کہا کہ مسافرت کی وجہ سے آپ نے قصر کیا تھا ، بولے کہ آپ کے پیچھے تمام لوگ جو مسافر نہ تھے ،ا قتداء کررہے تھے اور سب نے قصر کیا تھا ، اور آپ نے کسی سے نہیں فرمایا کہ تم لوگ اپنی نماز پوری کرلو، میں نے