کیفیت طاری ہوئی ، دیر تک سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان دعا ہوتی رہی ، لوگوں کی بھی آنکھیں برس رہی تھیں ،جب تک انشراح رہا دعائیں کرتا رہا، طبیعت صاف ہوگئی ،دل کا بوجھ اتر گیا ، آنسوؤں نے دل کے گردوغبار کو پاک صاف کردیا ۔ دعا سے فارغ ہوکر کچھ وقت باقی تھا ، میں پھر مشغول ہوگیا ،مفتی صاحب اور عادل سلّمہ بھی مشغول رہے ، جب طلوع شمس کا وقت ہوا ،وہاں سے نکلنے کی تیاری ہوئی ، پھر کئی لوگ مفتی صاحب سے مسئلے پوچھنے لگے ، اس سے فارغ ہوکر ہم لوگ خیمے کے احاطے سے باہر نکلے ، مفتی صاحب کو قربان گاہ جانا تھا ، ان کے ذمے بہت سے لوگوں کی قربانیاں تھیں ، کبری ملک عبد العزیز تک ہم لوگوں کو لے گئے ، وہاں انھوں نے ہمارے خیمے کا راستہ بتایا ، اورخود قربان گاہ چلے گئے ۔
۱۰ ؍ ذی الحجہ کی رمی :
ہم دونوں باپ بیٹے ہجوم میں ایک کیلومیٹر سے زیادہ پیدل چل کر خیمے میں پہونچے ، ساڑھے سات یا آٹھ کا عمل رہا ہوگا ، اس وقت خیمہ بالکل خالی تھا ، ابھی کوئی نہیں پہونچا تھا ، ہم لوگ تھکے ماندے اور رات کے جاگے تھے ، کچھ دیر کے لئے سو گئے ، پھر جب حاجیوں کے قافلے آنے لگے اور جو بھی آیا شور وغوغا کے ہنگامے کے ساتھ آیا ، تو آنکھ کھل گئی ۔ ۱۱؍ بجے کے بعد ارادہ ہوا کہ آج کی رمی کرلی جائے ، آج ایک ہی جمرہ … جمرۂ عقبہ … کی
(حاشیہ گزشتہ صفحہ کا) حضرت عباس بن مرداس سلمی ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ا نے فرمایا :میں نے عرفہ کے دن اﷲ سے دعاء کی ، کہ میری امت کے گناہ معاف فرمادے، تو اﷲ نے میری دعا ء قبول فرمالی کہ میں نے انھیں معاف کردیا ، مگر ان کے وہ گناہ جوان کے اور میری مخلوق کے درمیان ہیں ( یعنی جو حقوق العباد سے متعلق ہیں ان کے سوا معاف کردیا ) میں نے اسی دن پھر دعا کی ، مگر مجھے کوئی جواب نہیں ملا ۔ اگلے دن مزدلفہ میں ، میں نے عرض کیا : پروردگار! آپ اس بات پر قادر ہیں کہ اس مظلوم کو اس پر ہونے والے ظلم کا بہترین بدلہ عطا کریں ، اور اس ظالم کی مغفرت فرمادیں ، تو اﷲ نے میری دعاء قبول فرمالی کہ میں نے معاف کردیا ۔ پھر رسول اﷲ ا ہنس پڑے ، ہم نے کہا یارسول اﷲ ! آج کے دن سے زیادہ ہنستے ہوئے ہم نے آپ کو نہیں دیکھا ، تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اﷲ کے دشمن ابلیس کی حالت پر ہنسی آئی ، اس نے جب یہ سنا تو چلا نے لگا ، ہائے ہلاکت وبربادی! اور اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔ ( تفسیر طبری ،ج:۲، ص: ۱۷۱)