ہی کہتے تھے ،حضرت مولانا کی خیریت پوچھتے رہے، ۱۹۹۱ء کے سفر حج میں حضرت مولانا سے تعارف ہواتھا ، کچھ دیر ان کے پاس رہا ، وہیں کھانا کھاکر ظہر کی نماز حرم میں آکر پڑھی۔جب مدینہ شریف جانے میں چند دن رہ گئے تو بلال بھیا اور مولانا عزیز الرحمن صاحب نے دس دس لیٹر والا ڈرام خرید کر زم زم بھرنا شروع کیا ، یہ دونوں حضرات اور ان کے ساتھ کبھی کبھی میں بھی شامل ہوجاتا تھا ، باب الفتح سے پانی بھر کر دوکلومیٹر دور اجیاد لے جاتے ، تین چار مرحلے میں یہ کام مکمل ہوگیا ۔ اب مکہ کے قیام کا وقت تمام ہورہا تھا ، یکم؍ محرم کو اعلان ہوا کہ کل شام کو مدینہ شریف کے لئے روانگی ہے ،سامان وغیرہ درست کرلیں ۔یہ سن کر حرم کے فراق کے خیال سے دل پر غم واندوہ کے بادل چھانے لگے ، دوسرے دن زیادہ وقت حرم میں گذرا ، عصر بعد جانے کا اعلان تھا، عصر کی نماز سے پہلے طواف وداع کیا ، اور بادیدۂ نم کعبۃ اﷲ پر حسرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے اور دوبارہ آنے کی دعا کرتے ہوئے الٹے پاؤں باب الفتح سے نکلا ، داخلہ باب عبد العزیز سے ہواتھا ۔ آتے وقت دل کی کیا کیفیت تھی ، خمار کے شعر میں قدرے ترمیم کے ساتھ ؎
جدا ہوکے کس سے ہم جارہے ہیں اجل مل رہی ہے گلے زندگی سے
٭٭٭٭٭
مدینہ منورہ زاد ھااﷲ شرفاًو تعظیماً وتکریماً
سعودی تقویم کے اعتبار سے محرم کی دوسری تاریخ کو مدینہ منورہ ہماری روانگی طے پائی۔ پہلی محرم کو ہی مکہ مکرمہ سے رخصتی کا پیغام سنادیا گیا، ۲؍ محرم جمعرات کی شام کو مغرب کے بعد مکہ پر الوداعی نگاہ ڈالتے ہوئے اور دوبارہ یہاں آنے کی دعا کرتے ہوئے روانہ ہوئے ، طبیعت پر حزن وملال اور مسرت واشتیاق کی عجیب متضاد کیفیت طاری تھی ، ایک طرف اس کاغم کہ ایک ماہ کے قیام کے بعد مکہ مکرمہ چھوٹ رہا ہے، دوسری طرف اس کی بات کی خوشی کی اب مدینۃ الرسول ا میں حاضری ہوگی۔اسی ملی جلی کیفیت کے ساتھ قیام گاہ سے روانہ ہوئے ، بس معلم کے دفتر پر جاکر رک گئی ، اور دیر تک رکی رہی ، وہاں سے عشاء کی نماز پڑھ کر