صاحب بھی تھے ، مبارک پور کے مولوی افتخار احمد صاحب ، جو ریاض یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں ، مل گئے ، بڑی دیر تک وہاں مجلس رہی ، مولوی افتخار سلّمہ نے چائے پلائی ، حافظ محمد اکمل صاحب نے وہیں بیٹھے بیٹھے کھانا کھلایا، ملنے والے آتے رہے ، ساڑھے گیارہ بجے ہم لوگ وہاں سے اٹھے ، شارع ابراہیم خلیل پر ایک ٹیکسی لی ، اور منیٰ کے لئے روانہ ہوئے ، ٹیکسی والے نے بتایا کہ مزدلفہ کی طرف منیٰ کے شروع میں اتارے گا ، راستے میں بڑا سخت جام تھا ، ایک جگہ ایک گھنٹے گاڑی پھنسی رہی ، ایک جگہ اس نے بدایۃ منیٰ کہہ کر سواریوں کو اتارا، تو دو بج چکے تھے ، ہم نے چلنا شروع کیا ، تو معلوم ہوا کہ یہ مزدلفہ ہی ہے ، بدایۃ منیٰ ابھی دور ہے، بات یہ ہے کہ حکومت نے حاجیوں کے لئے منیٰ میں جو خیمے خاص قسم کے ۱۹۹۷ء کی آتشزدگی کے بعد تعمیر کرائے ہیں ، ان کے لئے حاجیوں کی تعداد کے لحاظ سے منیٰ کا میدان ناکافی تھا ، تو حکومت نے مزدلفہ کے ایک بڑے حصے میں خیمے لگادیئے ، یہاں گاڑی والوں کے عرف میں جہاں تک خیمے نصب ہیں ، وہ حصہ منیٰ ہی کہلانے لگا ہے ، اس لئے اس نے ’’بدایۃ منیٰ ‘‘ کہا تھا ، ایک گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد ہمارا خیمہ ملا ، ۳؍ بجے خیمے میں پہونچے ، ساڑھے چار بجے آنکھ کھل گئی ، وضو سے فارغ ہوکر چند رکعتیں نوافل کی ادا کیں ۔
۱۲؍ذی الحجہ کی رمی اور ایک وعظ :
۱۲؍ذی الحجہ کی صبح صادق ہوئی ، گلبرگہ کے ایک حاجی صاحب نے جن کی آواز ماشاء اﷲ کافی بلند تھی، اذان کہی، ایک صاحب کو مسئلہ کا جوش اٹھا ، بہت زور سے چلانے لگے کہ کیا مسجد کی اذان نہیں سنائی دے رہی ہے ؟ اس کے بعد اس اذان کی کیا ضرورت ہے ؟ ان کی چیخ میں نے سنی ، مگر عادت کے مطابق میں خاموش رہا ، اتفاق سے نماز پڑھانے والے حضرات موجود نہ تھے ، میں اپنی بیماری اور ضعف کی وجہ سے نماز نہیں پڑھاتا ، لیکن اس وقت سب نے زور دیا کہ پڑھادیجئے ، چنانچہ میں نے نماز پڑھائی ، دوران نماز خیال آیا کہ آج مناسک حج کا آخری عمل ہے، طواف زیارت حجاج عموماً کرچکے ہیں ، رمی کریں گے اور مکہ شریف روانہ ہوجائیں گے ، میں نے مناسب جانا کہ حاجیوں کے سامنے کچھ باتیں عرض