وہاں کے باغ سے عجوہ کھجورلی گئی ۔ قباء سے واپسی میں حافظ صاحب نے دریافت کیا کہ آپ نے وہ غار دیکھا ہے ، جس میں کفار کی یلغار میں زخمی ہونے کے بعد آپ ا نے استراحت فرمائی تھی ، اور کفار نے آپ کی شہادت کی خبر اُڑادی تھی ، میں نے نفی میں جواب دیا ، تووہ احد پہاڑ کی اس کھوہ کے پاس لے گئے ، کافی بلندی پر وہ کھوہ ہے، میں چڑھنے کی ہمت نہ کرسکا ، البتہ عادل اور قاری محمد ایوب صاحب چڑھ کے اندر گئے ، وہ بتارہے تھے کہ اندر خاصی جگہ ہے ، جس میں پانچ چھ آدمی آرام سے بیٹھ سکتے ہیں ۔ میں سوچتا رہا ، زخمی ہونے کی حالت میں رسول اﷲ ا اتنی اونچائی پر کیونکر چڑھے ہوں گے ، آہ! اﷲ کے محبوب رسول نے اﷲ کے لئے کتنی تکلیفیں اٹھائی ہیں ، میں یہی سوچتا رہا ، دل دردِ محبت سے بھرتا رہا، آنکھیں آنسوؤں سے چھلکتی رہیں ، صلی اﷲ علی سیدنا محمد نبیہ ورسولہ وبارک وسلم۔
دوپہر میں ظہر بعد حافظ صاحب عربی طرز کا کھانا قیام گاہ پر لے آئے ، ہم پانچ چھ آدمیوں نے آسودگی کے ساتھ اسے کھایا۔
بعد نمازِ عشاء افتخار اعظمی نے اپنے کفیل سے … جو ایک نیک دل مدنی شخص ہے … ملاقات کرائی ، وہ بہت دیر تک باتیں کرتا رہا ، مگر موجودہ بولی جانے والی عربی ہم لوگوں کے پلے نہیں پڑتی ، اس نے کل دوپہر کھانے کی دعوت کی ۔
گلواکے عبد الباری سے ملاقات ہوئی ، وہ ایک اچھا سا مصلیٰ لے کر آئے ، بمبئی کے سیّد نجم الحسن کھانا لے کر آئے ، ڈاکٹر شمیم احمد صاحب داؤدی ملنے کے لئے آئے۔
قاری رمضان صاحب علیہ الرحمہ کے صاحبزادے حافظ عبد الرحمن صاحب نے اپنے والد کے حالات کے لئے ایک کتاب ’’ امتاع الفضلاء وتراجم القراء فیما بعد القرن الثامن الہجری‘‘ فراہم کی ، اور پانچ کلو سکری کھجور بھی ہدیہ کی ، جزاہ اﷲ
۱۴؍ محرم الحرم ،۲۲؍ جنوری (سہ شنبہ)
آج باسی منہ شوگر چیک کی ، ۱۲۳ ہے۔ کھانے کے دوگھنٹے بعد چیک کیا،تو ۱۴۵ نکلی۔