چاہتا جس سے شہرت ہو ، اگر کوئی اور صاحب یہ کام کرسکتے تو میں معذرت پر اصرار کرتا ، مگر ہماری بلڈنگ میں کوئی صاحب نظر نہ آئے ، تو مجبوراً میں نے قبول کرلیا ، ۹؍ بجے صبح کی اطلاع سب کو ان حضرات نے کردی ، بلڈنگ کے زمینی حصہ میں ایک حصہ نماز وغیرہ کے لئے مختص ہے ، وہاں لوگ جمع ہوگئے ، میں نے حج کی ترتیب بیان کردی ، اس دوران کے حالات اور نزاکتیں اور کیا رویہ عمل میں رکھنا چاہئے سب بیان کئے ، پھر لوگوں نے مسائل پوچھنے شروع کئے ، میں نے مسائل بتائے ، مجھے خوشی ہوئی کہ اﷲ کے فضل اور دوستوں کی تحریک سے بروقت ایک مناسب اور ضرورت کاکام ہوگیا ، لوگوں میں بھی خوشی کے آثار پائے گئے کہ مسائل کے معلوم کرنے میں سہولت ہوگی ، کہ ہمارے درمیان مسائل بتانے والا ایک شخص قابل اعتماد موجود ہے ، ورنہ مسائل بتانے والے تو بہت ہیں ، مگر لاعلمی اور جہالت کے ساتھ دینی مسائل سے کھلواڑ کرنے والے ! جن سے مسائل پوچھ کر لوگ اور بھی دقت میں مبتلا ہوتے ہیں ۔
۸؍ ذی الحجہ:
شور تھا کہ رات ہی میں منیٰ جانا ہوگا ، بہت سے حجاج ۸؍ کی رات میں جاگتے رہے کہ کسی وقت گاڑی آسکتی ہے ، مگر گاڑی نہ آئی ، صبح کو معلم کی بس آئی ، اور مسنون بھی یہی ہے کہ ۸؍ کو ظہر سے پہلے منیٰ پہونچیں ، اورپانچ وقت نماز وہاں پڑھیں ، ۹؍ کو سورج طلوع ہونے کے بعد عرفات روانہ ہوں ، ہم لوگ بس سے منیٰ ۱۱؍ بجے کے قریب پہونچے ۔ معلم نے جو خیمہ ہم لوگوں کو عنایت فرمایا تھا ہم پہونچے ،تو وہ کھچاکھچ بھرا ہواتھا، جو لوگ پہلے پہونچ گئے تھے وہ چادر یں بچھا بچھاکر دراز تھے، معلم کی بد انتظامی تھی کہ جس خیمے بیس آدمیوں کی گنجائش تھی ،اس میں چالیس آدمی ڈال رکھے تھے ، اب جگہ ملے تو کیونکر ملے ، ہم لوگوں کے لئے بیٹھنے کی تو کیا ، سامان رکھنے کی بھی گنجائش نہ تھی ،معلمین کی شکایت تو بہت پرانی ہے ، مگر ادھر جب سے عربوں میں پیٹرو ڈالر کی خوشحالی آئی ہے ،شکایات کم ہوگئی تھیں ، حاجیوں کی ناتجربہ کاری اور بے ہنگم پنے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوجایا کرتے تھے ، سفر میں یونہی