بِسْمِ اﷲِ الْرَّحْمٰنِ الْرَّحِیْمِ
پانچ چھ سال کا عرصہ گذرا ، میں اپنے ایک بوڑھے ، لیکن بے تکلف دوست کے ساتھ الہ آباد جارہا تھا ، میری منزل الہ آباد تھی ، لیکن ان بوڑھے دوست کی منزل ؟ آپ کو کیا بتاؤں کہ وہ کہاں جارہے تھے ، وہ اس دیارِ پاک کا عزم رکھتے تھے ، جس کا محض تصور ہی ایک مومن کی روح میں اہتزاز اور طبیعت میں انبساط پیدا کرتا ہے ۔ ان کے لئے حج وزیارت کا فیصلہ عالم قدس میں ہوچکا تھا ، وہ اپنی خوش بختی پر مسرور تھے اور نازاں ! اور میں اپنی تیرہ بختی پر رنجور تھا اور گریاں ! میری آنکھوں میں آنسوڈبڈباآئے ، میں نے ضبط کی کوشش کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اس دیارِ قدس میں ، میں اپنی اس آلودگی اوزبوں حالی کے ساتھ حاضری کے تصور سے بھی گھبراتاہوں لیکن کیا عجب کہ نوازش ہوجائے ، اگر کبھی خیال آجائے تو اس دور افتادہ کے لئے ایک آدھ دعاکردیجئے ، یہ کہہ کر میں نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے مصافحہ کیا ، کانپتی زبان سے الوداع کہا ، اور حسرت بھری نگاہ سے جانے والے مسافر کی پیشانی چومی۔
اﷲ اﷲ ! یہ بوڑھا کیساخوش نصیب ہے؟ یہ وہاں جارہا ہے جہاں نصیبے والے ہی جاتے ہیں ، کیا کبھی وہ وقت بھی آئے گا کہ یہ حرماں نصیب بھی عزم سفر کریگا …… نہیں نہیں …… تمہارے پاس کیا ہے ؟ نہ ایمان کا کمال ہے ، نہ طاعتوں کا جمال! نہ تقویٰ ہے نہ طہارت! نہ یقین ہے نہ عبادت! پھر نہ اسباب ہیں نہ سازوسامان! جاؤگے تو کیونکر؟
لیکن اندر سے ایک ناشنیدہ سی آواز آرہی تھی کہ یہ سب چیزیں نہیں ہیں تو نہ سہی ، لیکن آخر تم ایک بندہ ہواور وہ پروردگار ! بندہ کے ہاتھوں میں کچھ نہیں ، پروردگار کے ہاتھ میں