سفر حج کے دوران
حج بیت اللہ کا موسم پھر آگیا ہے ، قافلے روانہ ہونے لگے ہیں ۔محبت الٰہی کی سر مستیاں زوروں پر ہیں ۔ خدا کے دیوانے پروانوں کی طرح شمع حرم کے گرد محو طواف ہیں ، منیٰ ، مزدلفہ، اور عرفات کی وادیاں آباد ہو رہی ہیں ۔رحمت الٰہی ان پر نثار ہوئی جا رہی ہے۔ کھنچ کھنچ کر تمام دنیا کے فرزندان توحید اپنے خالق ومالک وحدہ لا شریک لہ کے آستانِ خاص پر ہجوم لگائے ہوئے ہیں ۔ لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ کے نعرہ ٔ مستانہ سے دشت و جبل گونج رہے ہیں ۔ عشق کی شورشیں دلوں کو گرما رہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے غلاموں اور اپنی باندیوں کی اس حاضری کو قبول فرمائیں ، انہیں اپنا بنالیں ۔ ابراہیم ( علیہ السلام) کی شان حنیفی سے انہیں نوازیں اور بار بار حاضری کی سعادت بخشیں ۔ آمین یا رب العالمین ۔
جی چاہتا ہے کہ حج کے مسافروں سے کچھ باتیں کی جائیں ، سفر تو سفر ہی ہے اسے خواہ جتنا آسان بنا دیا جائے ، لیکن اس کی مشقتیں کسی نہ کسی صورت میں جلوہ گر ہوتی رہتی ہیں اور حج کا سفر تو کچھ اور آزمائش اور امتحان کی شان اپنے اندر رکھتا ہے ۔
حج کا مسافر جب اپنے گھر سے نکلتا ہے ، اس کے اعزاء و اقرباء اور دوست و احباب اسے رخصت کرتے ہیں ۔ تو اس کا دل اطاعت الٰہی کے جذبے سے معمور ہوتا ہے ، وہ اپنے نفس و خواہش اور مال و آسائش کو قربان کرکے اپنے وطن سے نکلتا ہے ۔ یہ جذبہ بے اختیارانہ پیدا ہوتا ہے ۔ بڑا ہی مبارک ہے وہ حاجی جو اس جذبہ کو برقرار اور پائیدار رکھے ، یہی جذبہ ٔ اطاعت ہر قدم اور ہر مرحلہ پر باقی رہنا چاہئے ۔ اس کی نگہداشت بہت ضروری