کے خلاف ہو ، لیکن سوچنا چاہئے کہ حدیث پر عمل کرنے کے لئے قرآن کریم کو پس پشت تو نہیں ڈالاجاسکتا، یہ عجیب بات ہے کہ خبر واحد اور اپنے قیاسات کے مقابلے میں قرآن کریم کے حکم کو توڑا اور مروڑاجائے ، یہی اس دور میں غیر مقلدیت کی علامت ہے ۔
اختلاف مسلک کوئی نئی چیز نہیں ، ائمہ فقہ میں اختلاف قدیم زمانے سے ہے ، مگر کوئی کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ اپنا مسلک ترک کرکے دوسرے کے مسلک کو اختیار کرے، اور نہ کوئی کسی کی تغلیط کرتا تھا ، مگر اب جو غیر مقلدیت کی ہوا چلی ہے ، تو آنکھ بند کرکے اپنے علاوہ سب کو غلط کہنے لگے ہیں ، اور سب کو مجبور کرتے ہیں کہ ایک مسلک پر سب آجائیں ، اس سے امت میں سخت انتشار پیدا ہوتا ہے ، یہ انتشار ہم نے داخلیوں کے اس خیمہ میں دیکھا ، وقوف عرفات کی جوروح ہے یعنی انابت اﷲ ، تضرع وزاری ، خشوع وخضوع ، دعا وگریہ ،سب مفقود! خوامخواہ کی کش مکش میں لوگ الجھے ہوئے تھے ، بیشتر افراد اسی میں مبتلا تھے ، یا دوسرے مشاغل میں مشغول ! بہت کم تھے جو اﷲ کے حضور انابت میں مشغول تھے ۔
اسی دوران مفتی عبد الرحمن صاحب کے پاس ایک شخص یہی اختلاف لے کر آیا ، انھوں نے سنجیدگی سے اسے سمجھایاکہ یہ وقت اور یہ جگہ بحث مباحثہ کی نہیں ہے ، اس کو سمجھایاتو وہ چلا گیا ۔
میری طبیعت ان احوال کی کو دیکھ کر بہت بدمزہ ہوئی ، مجھ سے بعض لوگوں نے عصر کے بعد اجتماعی دعا کے لئے کہا ، مگر میری طبیعت مکدر تھی ، مفتی صاحب بہت زور دے رہے تھے ، مگر عصر کے بعد وہ بھی خاموش رہے ، انفراداً دعا اور ذکر میں مشغولیت رہی ۔
عرفات سے کوچ:
سورج غروب ہواتو عرفات سے روانگی کی ہماہمی شروع ہوئی ، داخلی حجاج ہی میں سے ایک مخلص جناب الحاج محمدازہر صاحب … جو پاکستان کے رہنے والے ہیں … نے پیش کش کی کہ بس ۷؎ فلاں جگہ کھڑی ہے ، اس سے مزدلفہ چلیں ، ہمیں بھی آسانی معلوم ہوئی ، اس کی تلاش میں نکل پڑے ، میرے ساتھ مزدلفہ میں ٹھنڈک سے بچنے کا سامان تھا ، پچھلے