غرض انتظام کیا ہے؟ حسن انتظام ہے، اﷲ کی مدد ہے ، حاجی اطمینان سے اپنا فریضہ ادا کرتا ہے ، اور اپنے اوقات عبادت ، تلاوت ، ذکر واذکار میں مشغول رکھتا ہے ، حاجیوں کو انتظامی خرخشوں کی کوئی الجھن نہیں ، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے وقت معلمین کا عملہ لگا رہتا ہے ، مدد کرتا ہے، سواریاں ہوتی ہیں ، جو منیٰ ، عرفات میں خیموں تک پہونچاتی ہیں ، نہ مکان تلاش کرنا ہے نہ خیمہ ڈھونڈھنا ہے، بس ایک رقم خرچ ہوتی ہے اور حاجی تمام انتظامات سے بے نیاز ہوجاتا ہے ، ایر پورٹ سے دوبارہ ایرپورٹ پہونچانے کی تمام تر ذمہ داری معلم کی ہے، اور وہ اسے پورا کرتا ہے۔
یہ انتظامات تو مکہ مکرمہ ، منیٰ ، عرفات ،مزدلفہ اور حج سے متعلق ہیں ، جن کا ہلکا سا خاکہ تحریر کیا گیا، مدینہ شریف کا سفر اور وہاں کا قیام ایک مستقل موضوع ہے ، اس پر اگر توفیق ہوئی تو دوسری مجلس میں کچھ لکھاجائے گا۔
اس کے بعد ہندوستان کی حج کمیٹی ،اور ہندوستان کے حاجیوں کے سلسلے میں بھی کچھ گزارش کرنے کا ارادہ ہے ، دیکھئے اس کا موقع کب آتا ہے، والامر بید اﷲ وبنعمتہٖ تتم الصالحات۔
٭٭٭٭٭
ذکر مدینہ طیبہ
زباں پر بارِ الٰہا! یہ کس کا نام آیا
کہ نطق نے مرے، بوسے مری زباں کے، لئے
مدینہ شریف کا تصور آتے ہی ، ایک مومن کے قلب پر ایمان کی بادِبہاری چلنے لگتی ہے، روح تروتازہ ہوجاتی ہے، وِجدان پر مستی چھانے لگتی ہے، وہ شہر بھی کیا شہر ہے؟ جہاں دنیاجہان سے عقیدت ومحبت کے بادل امنڈ امنڈ کر آتے ہیں ، اور کسی کے پاؤں چوم کر