۹؍ ذی الحجہ( یوم عرفہ)
۸؍ ذی الحجہ کا دن گزرگیا ، رات کے وقت بارہ بجے کے بعد معلم کے آفس سے اعلان ہونے لگا کہ لوگ عرفات کو روانہ ہوجائیں ، بسیں لگی ہوئی ہیں ، فجر کے بعد بس نہیں ملے گی ، بہت سے تیاری کرکے جانے بھی لگے ، میرے جی میں آیا کہ رات ہی میں نکل جاؤں ، پچھلے سال کافی پریشانی بھگت چکا تھا ، لیکن یہ سوچ کر کہ فجر کے بعد فوراً نکل جائیں گے ، اول وقت میں فجر پڑھی ، نماز کے بعد استنجاء اور وضو کرنے کے لئے باہر نکلا ، واپس آیا ، تو خیمہ کے مین گیٹ سے کافی پیچھے تک حجاج کرام سامان لئے کھڑے تھے ، صدر دروازہ بند تھا ، بس آئے گی ، تو دروازہ کھلے گا ، ہم چند رفقاء خیمہ میں بیٹھ گئے کہ ہجوم کھسکے تو ہم بھی اس میں شریک ہوجائیں ، لیکن جام تھا کہ بڑھتا ہی جارہا تھا ، صدر دروازہ بند تھا ، کوئی نکل نہیں سکتا تھا ، منیٰ میں یہ پہلا تجربہ تھا ، ورنہ دروازہ کھلاہوتا ، تو بہت سے حجاج پرائیویٹ سواری سے عرفات نکل جاتے ، کتنے حوصلہ مند پیدل چلے جاتے ، مگر اﷲ جانے معلم کی آفس کی یہ کون سی منطق تھی کہ دروازہ بند کررکھا تھا ، کسی کو باہر نکلنے کی مطلق اجازت نہ تھی ۔ ایک کالاپہلوان دربان دروازے پر کھڑا تھا ، عجب کش مکش کا عالم تھا ، بہت دیر کے بعد ایک بس آئی ، اس پر کتنے آدمی آتے ، وہ چلی گئی اور جام جوں کا توں برقرار رہا ، نوبجے ہم لوگ بھی اس ہجوم کا حصہ بن گئے ، پھر ایک بس دس بجے کے قریب آئی ، اس کی وجہ سے ہجوم میں قدرے حرکت ہوئی ، ہم لوگ صدر دروازے کے قریب پہونچ سکے ، بس اپنی وسعت بھر آدمیوں کو لے کر چلی گئی ، دھوپ شدت اختیار کرتی جارہی تھی ، دروازہ تھا کہ کھلنے کا نام نہ لیتا تھا ، حجاج پریشان تھے ، دربان کی خوشامد کرتے تھے ، مگر وہ اندھا بہرا بناہواتھا ، معلم کا کوئی ذمہ دار آدمی نہ تھا کہ اس سے بات کی جاتی ، ایک گھنٹے کے بعد جب حاجیوں نے زیادہ شور مچایا تو شاید کالے کا بہرا پن ختم ہوا، اس نے دروازہ کھول دیا، اور ساتھ ہی یہ بشارت بھی سنائی کہ اب بس نہیں آئے گی ، تمام حجاج سراسیمہ تھے کہ اب کیا کیاجائے ، میں نے عادل سے کہا کہ اب وقت ضائع نہ کرو، کبری ملک عبد العزیزپر چلو ، وہاں سے کوئی سواری ملے گی ، یہ بات ٹیلیفون سے مفتی عبد