سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
سفر حج کے متعلق دو مضمون لکھ چکا ہوں ، دل پر تیسرے مضمون کا تقاضا مسلط ہے، یہ تقاضا سر ابھارتا ہے کہ اسے بھی لکھ دیا جائے، مگر مرحلہ نازک ہے ، یہ ان لوگوں کا تذکرہ ہے، جنھوں نے سفر حج میں ، سرزمین حرم میں اس ناکارہ اور مہمل بندے پر احسانات کی بارش برسائی ہے ، سوچتا ہوں کہ یہ تذکرہ انھیں ناگوار نہ ہو۔ یہ بھی سوچتا ہوں کہ حق کی ادائیگی میں مجھ سے کوتاہی نہ ہوجائے، پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ قلم ہاتھ میں ہے ، حج کا کچھ نہ کچھ تذکرہ لکھ بھی دیا ہے ، تو کیا یہ احسان فراموشی نہ ہوگی کہ جن حضرات کے احسانات میں ڈوب ڈوب کر رہا ہوں ، قلم انھیں کے بارے میں کوتاہ ہوجائے ، دل کی یہ کشمکش ہے ، اور عقل کا فیصلہ ہے کہ لکھو ضرور! ناگواری کی پیشگی معذرت ، اور ادائے حق میں تقصیر کے لئے التجائے عفو ودرگذر !
خواجہ آتش لکھنوی کا شعر ہے ۔ ؎
سفر ہے شرط ،مسافر نواز بہتیرے ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
آدمی جب سفر پر نکلتا ہے ، تو گو گرانیاں اور ناگواریاں بہت سی پیش آتی ہیں ، قدم قدم پر دشواریاں جھیلنی پڑتی ہیں ،لیکن انھیں دشواریوں کے درمیان سہولتیں بھی ظاہر ہوتی رہتی ہیں ، بہت سے اﷲ کے بندے ایسے مل جاتے ہیں ، جن کی وجہ سے سفر پُربہار اور پُرکیف ہوجاتا ہے۔
(۱) موسم حج میں ، سرزمین حرم انسانوں کے ہجوم سے لبریز ہوجاتی ہے ، اﷲ کے نام کے دیوانوں کا وہ ازدحام ہوتا ہے کہ بسااوقات چند قدم کی مسافت طے کرنے میں بہت