اسی کے ساتھ اس حج کے احوال کو بھی قلمبند کرنا شروع کیا ، جس کا سلسلہ بحمد اﷲ چل رہا ہے، جس مضمون کومولوی ضیاء الحق سلّمہ نے حوالے کیا تھا ،ابھی ۱۹؍ ذی الحجہ مطابق ۲۸؍ دسمبر تک اسے ہاتھ نہیں لگایا ہے۔ اب سوچتا ہوں کہ اس پر کام شروع کروں ۔
۱۴؍ ذی الحجہ :
ہر سال حج میں نئے تجربات ہوتے ہیں ، ہمارے بزرگ مولانا قاری ولی اﷲ صاحب فتحپوری امام نور مسجد ممبئی ، جو ۱۹۷۲ء سے مسلسل حج کے لئے آرہے ہیں ، فرماتے ہیں کہ پچھلے حج کے تجربات اگلے حج میں کام نہیں آتے ، ایک نیا تجربہ یہ ہوا کہ ہم لوگوں کو حافظ نوشاد احمد اعظمی کی کوشش سے بلڈنگ تو بہت اچھی ملی ، حرم سے بہت قریب نہیں تو بہت دور بھی نہیں ہے ، محلہ اجیاد میں ، ایک بلڈنگ ہے ،’’ابراج خزندار‘‘ اسی کی آٹھویں منزل پر کمرہ نمبر ۱۰ ہے، یہ کمرہ اصلاً دو آدمیوں کے لئے ہے ، مگر حج کی بھیڑ میں اس کے اندر تین بیڈ لگادئے گئے ہیں ، ہم جیسے لوگ اس میں بھی بسہولت گزر کرلیں گے ، مگر ستم یہ ہواکہ بیڈ تین ، افراد اس میں چار رکھے گئے، ہم باپ بیٹے پہلے آئے ، دوسرے دن گوالیار کے میاں بیوی آئے ، یہ لوگ بہت پریشان ہوئے ، انڈین حج مشن سے فریاد کی ، مگر حج کے قریب ہونے کی وجہ سے بھیڑبہت ہوگئی تھی، اور کام بہت جمع ہوگیاتھا، کوئی شنوائی نہیں ہوئی ، مجبوراً وہ لوگ بھی اسی میں تنگی کے ساتھ رہنے لگے ۔ حج مشن میں اعظم گڈھ کے مولوی محمد یونس صاحب کام کرتے ہیں ، ان سے میرے تعلقات ہیں ، ان کا تعلق بلڈنگوں کے انتظام سے نہیں ہے ، مگر ان سے میں نے کہا کہ آپ اس میں دخل دے کر مسئلہ کو حل کرائیے ، انھوں نے کوشش کی، مگر مسئلہ حل نہ ہوسکا، آخر میں انھوں نے کہا کہ دوروز کی اور بات ہے ، اس وقت انتظام مشکل ہے ، دوروز کے بعد منیٰ چلے جائیں گے ، حج سے واپسی کے فوراً بعد حاجیوں کی واپسی شروع ہوجائے گی ، اس کے بعد جلد ہی انتظام کردیا جائے گا۔ میں نے گوالیار کے حاجی احسان خان کو یہ بات سمجھائی ، وہ مان گئے ، ایک دوروز میں وہ مانوس بھی بہت ہوگئے ، حج سے فراغت کے بعد ضروری تھا کہ کوئی انتظام کردیا جائے، کیونکہ میرے پاس ملنے والے