ایک بس پر سوار کردیا ، بس قدرے سست رفتاری سے چلی ، اور تقریباً دو گھنٹے میں مکہ شریف پہونچی ۔ بلڈنگ نمبر ۴ جو ’’ابراج خزندار‘‘ کے نام سے موسوم ہے ، اس کے حصہ بی میں آٹھویں منزل پر روم نمبر ۱۰ میں جگہ ملی، یہ عمارت محلہ ’’اَجیاد‘‘ میں ہے ، جو حرم شریف سے زیادہ دور نہیں ہے ، مگر بہت قریب بھی نہیں ہے ، کمرے میں آئے ، تو اس میں تین بیڈ لگے ہوئے تھے اور چار آدمیوں کا نام چسپاں تھا ، ایک خاتون بھی تھیں ، ہمیں گھبراہٹ ہوئی ، مگر دوسرا قافلہ ابھی آیا نہ تھا ، ہم لوگ سو گئے ، ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد صبح صادق ہوئی ، میری آنکھ صبح صادق سے آدھ پون گھنٹے قبل کھل گئی ، کچھ نفل اور وتر ادا کئے ، پھر فرزند عزیز حافظ محمد عادل کو جگایا ، حرم جانے کی گنجائش نہ تھی ، یہیں ہم باپ بیٹوں نے جماعت کرلی ، اور پھر سوگئے ۔ میں اِفراد کے احرام میں تھا ، اپنی بیماری اور ضعف نیز عاشقین خدا کے بے پناہ ہجوم کی وجہ سے حرم جانے کی ہمت نہ کرسکا ، مفتی عبد الرحمن صاحب تشریف لائے ، ان کے ساتھ عادل کو بھیج دیا ، اس نے جاکر عمرہ ادا کیا ، میں کاہل اور نکما آرام پرستی میں پڑا رہا ، اور نفس حیلے بہانے بناتا رہا، مجھے طوافِ قدوم کرنا تھا ، اس کے ساتھ سعی بھی کرنی تھی ۔
شام کو میاں بیوی پرمشتمل دوسرا قافلہ آگیا ، اس نے ایک بیڈ دیکھا تو بہت پریشان ہوا ، بہت فریاد کی ، انڈین حج مشن میں درخواست دی ، مگر اب حج کا وقت قریب ہے ، ہجوم بہت ہے ، دوسری جگہ دینے کی گنجائش نہیں ہے ، یہ لوگ گوالیار کے ہیں ، لیکن تھوڑی دیر ساتھ رہ کر بہت مانوس ہوگئے ، مجھ سے کہا گیا کہ حج تک گزارا کرلیجئے ، بعد میں انھیں دوسری جگہ منتقل کردیا جائے گا ، میں نے ان سے کہا ، یہ لوگ راضی ہوگئے ہیں ، دوتین روز کے بعد منیٰ جانا ہے ، اسی میں گزر ہونے لگی ۔
طوافِ قدوم کے ساتھ سعی کا مسئلہ :
مسئلہ یہ ہے کہ مفرد بالحج طواف قدوم کے ساتھ سعی کرلے…ایسا کرنا مسنون ہے … تو اسے طوافِ فرض یعنی طوافِ زیارت کے بعدسعی کرنے کی حاجت نہیں رہتی ، ہم ۳؍ ذی الحجہ کو مکہ شریف پہونچے تھے ، دوسرے روز یعنی۴؍ ذی الحجہ کو طوافِ قدوم کیا ،