بِسْمِ اﷲِ الْرَّحْمٰنِ الْرَّحِیْمِ
کتاب سے پہلے
مجھے حجِ بیت اﷲ کا شوق تھا، لیکن سفر حج لکھنے کا کوئی خیال نہ تھا ۔ حج کی دعائیں میں اس وقت سے کررہا تھا ، جب ظاہری وسائل واسباب کا سرے سے پتہ نہ تھا ،اور نہ اس وقت اس عمر کا کوئی لڑکا حج کی بابت سوچ سکتا تھا ، پھر جب کسی قدر شعور وآگہی حاصل ہوئی ، اور اپنے دامنِ دل پر نظر پڑی ، اوروہ گناہ کے داغ دھبوں سے بھرا نظر آیا، تو شرم سی آنے لگی کہ ان گندے داغوں اور بدبودار دھبوں کو لئے ہوئے ، اس دربار میں حاضری کیونکر ہوگی ؟ پیاز کی بو ، مسجد میں اﷲ کے رسول (ﷺ) کو گوارا نہ تھی ، تو معاصی کی گند کو بیت اﷲ الحرام میں کیونکر برداشت کیا جائے گا ۔ اس شرم کی وجہ سے زبان کی دعا موقوف ہوگئی ، مگر وہی دعا دل میں خارِ تمنا کہئے یا خارِ حسرت بن کر چبھ گئی ، جو اکثر وبیشتر میرے وجود کو کچوکے لگاتی رہتی۔ پھر قافلے جاتے رہے ، آتے رہے اور میں تمنا وحسرت کے درمیان تہ وبالا ہوتا رہا ، مگر میرے مالک نے کرم فرماہی دیا ، وہی جس کے پاس اسباب نام کی کوئی چیز اب بھی نہ تھی ، یکایک اٹھا اور حرمِ کعبہ میں جااترا ۔ یہ ۱۴۰۹ء مطابق ۱۹۸۹ء کی بات ہے ۔ اب سوچتا ہوں تو دیوانے کا خواب محسوس ہوتا ہے ، مگر ایک واقعہ ہوچکا ہے ، وہ خواب نہیں بن سکتا۔
حج سے واپسی ہوئی ، خوشی تو تھی ہی ، اور ہونی بھی چاہئے ، ایک گنہگار بندہ مالک کی جلوہ گاہِ خاص پر پہونچا اور بخیریت واپس آیا ، اس پر خوشی نہ ہوتو اور کیا بات خوشی کی ہوگی ؟ مگر جتنی خوشی تھی ،اتنی ہی ندامت بھی تھی ۔ نہ جانے یہ جانا اﷲ تعالیٰ کے یہاں کس مد میں جائے