جیزان میں رہتا ہے۔
۲۱؍ ذی الحجہ،۳۰؍ دسمبر :
آج بعد نماز مغرب حرم کے تہہ خانے، جہاں میں عافیت کی تلاش میں پڑا رہتا ہوں ، ہمارے گاؤں کے اس سال کے واحد حاجی ،حاجی عبد المجید سے ملاقات ہوئی، ابھی ان سے خیر خیریت دریافت کررہا تھا کہ مولانا محمدا صغر صاحب ، صدر مدرس مدرسہ منبع العلوم ، خیرآباد تشریف لائے ۔ ان کے ساتھ حاجی حفظ الرحمن اور حافظ محمد مبین خیرآبادی تھے ۔ ذکر اس کا تھا کہ حجر اسود پر پہونچنا بغیر دھکم دھکا کے ممکن نہیں ہے ، میں نے کہا کہ میرا یہ ساتواں حج ہے ، مگر عام ہجوم نہ ہونے کے باوجود حجر اسود پر اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ بغیر شدید مزاحمت کے وہاں تک پہونچانہیں جاسکتا ، اسلئے اب تک اس محرومی پر صبر کئے ہوئے ہوں ، پھر اس کی اہمیت اور اس تک نہ پہونچ سکنے کا تذکرہ ہوا، میں نے کہا ، حجر اسود بہت متبرک ہے ، مگر نبی کریم ا کی تعلیم وتلقین اس سے زیادہ متبرک ہے ، جب آپ نے مزاحمت اور دھکم دھکا سے منع کردیا ہے ، تو یہی زیادہ متبرک بات ہے ، پھر میں نے کہا ایک پختہ بات سنئے !
کبیرداس کے بیٹے کمال شاہ تھے ، جس طرح کبیر داس سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کوبھی دلچسپی تھی ، اسی طرح کمال شاہ سے بھی ہندو عقیدت رکھتے تھے ۔ ایک پنڈت گنگا اشنان کے لئے جارہاتھا ، اس نے کمال شاہ کی خدمت میں حاضری دی ، اور ان سے درخواست کی ، کہ کوئی خاص وظیفہ بتائیے ، کمال شاہ نے ایک وظیفہ بتایا کہ رات کے سناٹے میں گنگا کے کنارے اس وظیفہ کاجاپ کرنا ، تو گنگامائی کے دوہاتھ نکلیں گے ، ان میں کنگن ہوں گے وہ کنگن تم مانگ لینا ، تمہاری زندگی بھر کے لئے بھلا ہوگا، اس نے وہ وظیفہ ان کی ہدایت کے مطابق پڑھا ، اس نے دیکھا کہ دوہاتھ نمودار ہوئے، اس نے کنگن مانگے ،وہ اسے مل گئے ، وہ نہال ہوگیا ، خوش وخرم گھر کو لوٹا ، ایک انگوچھے میں اس نے دونوں کنگن لپیٹ رکھے تھے ، لیکن چلتے چلتے وہ راستے میں کھول کر دیکھتا بھی رہتا تھا ، ایک مرتبہ وہ دیکھ رہا تھا کہ اچانک چیل نے جھپٹا مارا اور ایک کنگن چھین لے گئی ، اسے بہت صدمہ ہوا ، گھر جانے کے