اور کہتے ہیں حدیث میں کہاں لکھاہے ۔ کوئی ان ستم ظریفوں سے پوچھے کہ شریعت میں اﷲکے شعائر کے ادب کا حکم ہے یا نہیں ؟ تو کیا اس کی جزئیات کی تفصیل بھی کتاب سنت میں مل جائے گی ، اور جس جزئی کا تذکرہ نہ ہو ، وہ ادب سے خارج ہے ، یہ عجیب بات ہے کہ ہر جزئی مسئلہ کے لئے حدیث کا مطالبہ ہوتا ہے، اور خود جو چاہیں کریں ، اس کے لئے کسی حدیث کی ضرورت نہیں ۔ اصول دین کی ذرا بھی سمجھ ہوتی تو ایسی احمقانہ باتیں نہ کرتے ۔
پاکستان کے مشہور عالم ومفتی حضرت مولانا مفتی محمود صاحب علیہ الرحمہ ایک مرتبہ یہاں تشریف لائے تھے تو کسی نے ان کی ملاقات یہاں کے مفتی اعظم سے کرائی ، اور تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک مدرسے کے مدیر ہیں ، انھوں نے نام پوچھا ، تو فرمایا کہ مدرسہ قاسم العلوم ، پوچھا کہ قاسم العلوم کیا؟مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہمارے بزرگ تھے ، مولانا محمد قاسم صاحب ، ان کے نام کے ساتھ نام رکھنے کو بطور تلمیح کے استعمال کیا گیا ہے ، مفتی اعظم کو توحید کا جوش اٹھا ، اور بولے یہ کیا، یہ تو شرک ہے ، مفتی صاحب نے فرمایا کہ یہ شرک تو میں نے بیت اﷲ شریف کے دروازے پر دیکھا ہے ، دیکھا کہ لکھا ہوا کہ بابِ عبد العزیز، آخر اﷲ کے گھر کے دروازے پر عبد العزیز کا کیا کام؟ اس پر وہ صاحب خاموش ہوگئے ، استدلال سے ناواقف لوگوں کی یہی منطق ہے ، جس سے مسائل میں گڑبڑ ہورہی ہے۔
عشاء کی نماز کے بعد مفتی عبد الرحمن صاحب جدہ سے تشریف لائے۔
۱۷؍ محرم الحرم ،۲۵؍ جنوری (جمعہ)
آج مدینہ شریف میں قیام کا آخری دن ہے ،مفتی عبد الرحمن صاحب کے ساتھ صحابہ کے مدفن مبارک جنت البقیع میں حاضری دی ، اور یہاں کے مکینوں کو الوداعی سلام عرض کی ، مغرب کی نماز کے بعد حضور سیّد المرسلین خاتم النبیین رحمۃ للعالمین سیّدنا حضرت محمد رسول اﷲ ا کی مقدس بارگاہ میں آخری سلام کرنے کے لئے حاضر ہوا۔ طبیعت پر اس جدائی کا بہت اثر تھا ، دیر تک کھڑا رہا ، دعائیں کرتا رہا ۔ آنسوؤں نے دل کو دھویا ، سلام کیا ، اور بوجھل