کا تقاضا جلد جلد ہوتا ہے ، اور حرم میں پہونچ جانے کے بعد استنجا خانہ تک پہونچنا سخت مشکل ہے ، اور پہونچ بھی جائیے تو لمبی لائن کا تحمل اس سے زیادہ مشکل ، میری آرام پسند طبیعت نے ان کمزوریوں اور مجبوریوں کا بہانہ بناکر بے ہمتی اختیار کی ، میں نمازیں کمرے ہی میں پڑھتا رہا، کوئی نہ کوئی مل ہی جاتا ، اور جماعت کاانتظام ہوجاتا ، البتہ فجر کی نماز میں روزانہ حرم شریف پہونچ جاتا ، وہ اس طرح کہ چار بجے سے پہلے ہی ہمت کرکے حرم شریف چلا جاتا ، اور حرم شریف کے گرم ترین حصے یعنی ملک عبد العزیز کے تہہ خانے میں پہونچ جاتا ، وہاں اے۔سی نہیں ہے ، گرمی کی وجہ سے استنجا کے تقاضے سے ذرا مہلت مل جاتی ہے ، فجر کی نماز ساڑھے پانچ بجے کے قریب ہوتی ، آرام سے گزر ہوجاتا ، تہ خانے میں ذرا اطمینان رہتا ہے ، دوسرے وقتوں میں یہاں تک نماز سے اتنے قبل پہونچنا مشکل ہوتا ، کیونکہ لوگ شروع ہی میں راستوں میں مصلیٰ بچھا بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔
بعض اہم ملاقاتیں :
حج کے اس ہجوم میں کسی کو تلاش کرنا اور اس سے ملاقات کرنا ایک کارِ دشوار ہے ، اور میں عموماً اس کارِ دشوار میں نہیں پڑتا ، بس جس سے ملنے کی آرزو ہوتی ہے اس کے لئے ا ﷲسے دعا کرکے فارغ ہوجاتا ہوں ، مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ میرے مخدوم ومحسن اور پیرصحبت ، صوبۂ بہار کے مسلّم صاحب نسبت بزرگ حضرت ماسٹر شاہ محمد قاسم صاحب مدظلہٗ ایک مختصر سے قافلے کے ساتھ حج میں تشریف لائے ہیں ، ان سے ملاقات کی آرزو تھی ، سوچا تھا کہ حج کے بعد ملاقات کروں گا ، لیکن دیکھا کہ ایک روز بعد نمازِ عشاء بنفس نفیس اپنے رفقاء کے ساتھ تشریف لارہے ہیں ، حضرت کی اس ذرہ نوازی اور کرم فرمائی سے میں پانی پانی ہوگیا ، حضرت کے ساتھ میرے ایک حج کے رفیق اور دربھنگہ میں میرے مستقل میزبان جناب الحاج نور اﷲ بھائی کے برادر نسبتی جناب ممتاز احمد صاحب بھی تھے ، ان کے ساتھ ایک اور صاحب تھے ، سفید ریش ، ہنس مکھ ، میں حضرت سے ملاقات کی مسرت میں کھویا ہوا تھا کہ کسی نے توجہ دلائی کہ یہ مولانا باقی باﷲ کریمی صاحب ہیں ، مجھے حیرت ہوئی ، میں نے کہا