نکاح کرلیا ہے ، اور اہلیہ یہیں رہیں گی ، اس لئے مکہ مکرمہ میرے لئے بحکم وطن ہے ، اس لئے میں نے اتمام کیا ، قصر نہیں کیا ، اس پر لوگ مطمئن ہوئے ، اس سے واضح ہواکہ قصر کا تعلق مناسک حج سے نہیں ہے ، سفر کی ضرورت سے ہے۔
( اس مسئلہ کی تحقیق کیلئے مولف کا رسالہ ’’ حج وعمرہ کے مسائل میں غلو اور ان کی اصلاح ‘‘ دیکھئے۔)
۱۱؍ ذی الحجہ کی رمی اور طوافِ زیارت:
۱۱؍ ذی الحجہ کوتینوں جمرات کی رمی کرنی چاہئے۔آج رمی کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے ، خود غرض اور جاہل معلمین نے اپنی آسانی کے لئے یہ اعلان بلڈنگوں میں لگارکھا ہے کہ رمی چوبیس گھنٹے میں جب چاہیں کرسکتے ہیں ، یہ بات قطعاً غلط ہے ، رسول اﷲ ا ، صحابہ کرام ث اور ان کے بعد ائمہ تابعین وتبع تابعین کسی نے ۱۱؍ اور ۱۲؍ ذی الحجہ کو زوال سے پہلے نہ رمی کی ہے اور نہ رمی کی اس وقت اجازت دی ہے ، ہجوم اور بھیڑ بھاڑ کا مسئلہ آج کا مسئلہ نہیں ہے ، زمانۂ قدیم سے یہ مسئلہ موجود ہے ، اور اس کی وجہ سے رسول اﷲ ا نے ضعفاء ، عورتوں اور بچوں کو رخصت دی ہے، چنانچہ وقوف مزدلفہ کا وقت طلوع صبح صادق سے طلوع شمس تک ہے ، مگر آپ نے ہجوم کی وجہ سے عورتوں اور ضعفاء کو رات ہی میں مزدلفہ سے منیٰ جانے کی اجازت دی ہے ، لیکن گیارہویں ، بارہویں کی رمی کے متعلق زوال سے پہلے کبھی اجازت نہیں دی ، ان دونوں دنوں میں زوال سے رمی کا وقت شروع ہوتا ہے، اس سے پہلے رمی کی ، تو وقت سے پہلے ہونے کی وجہ سے کسی امام کے نزدیک رمی درست اور معتبر نہ ہوگی۔
ہمیں آج رمی بھی کرنی ہے اور طوافِ زیارت بھی ! مفتی عبد الرحمن صاحب قربانیوں میں مشغول ہیں ۔ میرے بہت عزیز طالب علم مولوی محمد فاروق سلّمہ جنھوں نے گورینی زمانۂ تدریس میں میری اور میرے گھر کی عدیم المثال خدمت انجام دی ہے ، اب عرصے سے جدہ میں رہتے ہیں ، وہ اور ان کے ساتھ سیّد القراء والمجوّدین حضرت مولانا قاری محمد اسمٰعیل صاحب مدظلہٗ صدر شعبۂ قرأت مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے