ہیں … کہ اس مردہ قالب میں قبولیت کی روح ڈال دیں ، یہ بے جان ڈھانچہ ہم لئے بیٹھے ہیں ، اور امید لگائے ہوئے ہیں کہ آپ کی رحمت جانفزا کا جھونکا آئے گا ، اور اسے زندہ کرکے قبولیت کے لائق بنادے گا ، جو کچھ ہواہے ، پروردگار! آپ کی رحمت سے ہوا، ورنہ کہاں ہم جیسے روسیاہ ، اور کہاں یہ پاک سے پاکیزہ تر بارگاہ! دور ہی سے دھتکار دئے جاتے ، تو جو کچھ ہوا آپ کی رحمت سے ہوا، اور جس کی ہم آس لگائے بیٹھے ہیں ، وہ بھی آپ کی رحمت ہی سے ہوگا ، اور آپ نے فرمایا ہے : یٰعَبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلیٰ أَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اﷲِ إِنَّ اﷲَ یَغْفِرُ الْذُّنُوْبَ جَمِیْعاً إِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ( سورۂ زمر : ۵۳) اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ، تم اﷲ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بلا شبہ اﷲ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کردیں گے ، اور وہی تو ہیں جو مغفرت بھی فرمانے والے ہیں ، رحم فرمانے والے بھی ۔ آپ کے اس فرمان ذی شان پر ہمارا ایمان ہے ، پس ہم اپنی امیدمیں غلطی پر نہیں ہیں ، لیکن ہاں جو ہوگا آپ کی رحمت ہی سے ہوگا۔رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَ ُتبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ وصلی اﷲ علی خیرخلقہ سیّدنا محمد نبیہ و رسولہ وعلیٰ آلہ وصحبہ سلم أجمعین۔
دعاؤں کی قبولیت کا مظہر:
میں مدرسے کا آدمی ہوں ، بچپن سے اب تک جبکہ میری عمر ۵۸؍ کوپار کرچکی ہے مدرسے ہی میں رہا ، نہ کبھی مدرسہ کی چار دیواری سے باہر نکلنے کا ارادہ کیا ، اور نہ کبھی دنیوی مال ومتاع کو مطمح نظر بنایا ، ظاہری احوال کے اعتبار سے ایک تو کیا ،آدھ فی صد بھی امید نہ تھی کہ مجھے سفر حج کی سعادت نصیب ہوگی ، مگر دعا کرتا رہا ، اور جہاں تک مجھے یاد ہے سترہ اٹھارہ سال تک متواتر دعا کی ہے ۔ علمی و دینی موضوعات میں مجھے سب سے زیادہ دلچسپی رسول اﷲا کی سیرتِ طیبہ سے ہے،آ پ کی ذات گرامی سے محبت اور عشق جذرِ قلب میں پیوست ہے ، اس عشق ومحبت کالازمی اثر ہے کہ آپ کے دیار سے بھی اسی درجہ میں محبت ہے ، تو