رودادِ حرمین شریفین ( ۱۴۱۱ھ ، ۱۹۹۱ء)
کہتے ہیں کہ خدا دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے، ۱۹۷۳ء (۱۳۹۳ھ) سے جہاں تک مجھے یاد ہے، میں نے حج کے لئے دعا شروع کی تھی ، اس وقت میں بہار کے ایک دورافتادہ، شہری علاقے سے کافی فاصلے پر پہاڑیوں کے درمیان ایک دیہاتی اور بادیہ نما علاقہ میں مقیم تھا ، بقرعید کا موقع تھا ، حاجیوں کی یاد آئی ، حج کا موسم دل ودماغ میں ربودگی پیدا کررہا تھا، صبح کو میدانی زمین میں کچھ دور ٹہلنے کے لئے نکلتا ، دیہات کی صاف ستھری ہوا جسم کو لگتی ، تو بے اختیار ذہن کی رفتار سرزمین قدس مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی طرف مڑجاتی ، اس وقت میری عمر ۲۲؍۲۳؍سال کے درمیان رہی ہوگی ۔ اسبابِ دنیوی میرے پاس نہ ہونے کے برابر تھے ، بہت قلیل تنخواہ پر پڑھاتاتھا، سفر حج تو دور کی بات ہے ، معمولی سفر کا حوصلہ کرنا بھی مشکل تھا ، مگر حق تعالیٰ کی رحمتیں ، برکتیں اور نوازشیں عجب کرشمہ دکھا رہی تھیں ۔ میری ضروریات اسی قلیل تنخواہ کے ذریعے پوری ہورہی تھیں ، یہ ایک مستقل باب ہے، جو تحدیث نعمت کے ذیل میں تحریر کیا جاسکتا ہے، اسبابِ دنیوی سے میں دور ومہجور تھا ، مگر دل تھا کہ رب تعالیٰ کے حضور مناجات کرتا تھا کہ پروردگار! سہارا تو آپ کا ہے، اسباب بھی آپ ہی کے سہارے کے محتاج ہیں ۔
میں یہ تصور تو نہیں کرپاتاتھا کہ کبھی مجھے بھی یہ سفر سعادت نصیب ہوگا، لیکن دل کی سرگوشی تھمتی بھی نہ تھی، زبان سے دعا کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی ، مگر دل کیونکر چپ ہوتا ، وہ