طواف میں پروانوں کا شدید ریلا تھا ، طواف کرنے والے اپنی دھن میں طواف کرتے ہیں ، مردبھی عورتیں بھی ، عموماً ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ تیز رفتاری میں کوئی سست رفتار حائل ہوتا ہے ، تو اسے ہاتھ کے زور سے ہٹاتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ، میں ٹھہرا کمزور اور بیمار! اور پھر یہ التزام کہ سر جھکا کر ، دونوں ہاتھ گراکر طواف کرنا ہے ، کیسا بھی موقع ہو نہ ہاتھ اٹھا نا ہے ، نہ نگاہ! میں اپنے انھیں التزامات کے ساتھ چلتا ہوں ، اور دائیں بائیں سے دھکے اور ضرب محسوس کرتا رہتاہوں ، خصوصاً عورتوں کی تیزگامی کافی دھکے لگاتی ہے ، خدا خدا کرکے ایک گھنٹے میں طواف پورا ہوا، اضطباع تو کرلیا تھا ، مگر رمل کی نوبت کم ہی آئی ، ارادہ تھا کہ سعی بھی کرلوں گا ، مگر تھک کر چور ہوگیا تھا ، دورکعت نفل پڑھ کر تھکے ہوئے بیل کی طرح بیٹھ گیا۔
طواف اور سعی کے درمیان فصل:
مفتی عبد الرحمن صاحب کو فون کیا کہ کیا سعی کااتصال طواف کے ساتھ ضروری ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ نہیں ، بعد میں بھی کرسکتے ہیں ، اس جواب کو میری کاہلی نے بہت پسند کیا ، اور میں کمرے میں چلا آیا ، پاؤں پر ہلکا ورم تھا ، آرام کیا ، دوسرے روز صبح کو سعی شروع کی ، چار چکر کے بعد تھک گیا ، تو تین چکروں کو کل پر اٹھادیا اور واپس آگیا ، دوسرے دن باقی تین چکر پورے کرلئے ، بحمد اﷲ سعی مکمل ہوگئی ، سعی کے لئے نہ اتصال شرط ہے اورنہ مسلسل لگاتار ہونا شرط ہے ۔( غنیۃ الناسک، ص: ۶۸بحوالہ زبدۃ الناسک ،ص: ۱۴۲)
میری کاہلی :
۶؍ذی الحجہ کو میں نے سعی مکمل کی ، اب حجاج کا پورا مجمع مکہ شریف میں اکٹھا ہوگیا ہے ،حرم شریف کا ہر حصہ بالکل لبریز ہے ، سڑکوں پر آدمی ہی آدمی ہیں ، حرم شریف کے اندر جگہ لینے کے لئے بہت پہلے جانا شرط ہے ، ورنہ راستوں میں نماز کی صفیں اس کثرت سے لگ جاتی ہیں کہ حرم تک پہونچنا ممکن نہیں ہوتا ، میں بچپن سے ضعف مثانہ کا شکار ہوں ، استنجاء