رودادِ حرمین شریفین (۱۴۲۳ھ، ۲۰۰۳ء)
اس سال اﷲ تعالیٰ نے اپنے اس ظلوم وجہول بندے کو سفرِ حج کی سعادت بخشی، کوئی ارادہ نہ تھا کہ اس سفر کے متعلق کچھ لکھوں ۔ سفر میں نکلتے وقت مدرسہ کے بعض اساتذہ اور طلبہ نے دعاؤں کے لئے عریضے لکھ لکھ کر میرے حوالے کئے تھے، تعمیل حکم میں میں نے وہ عریضے مقامات مقدسہ میں اجمالاً اور تفصیلاً پڑھئے، جیسا بن پڑا دعائیں کیں ، اور ان عریضوں کے جواب میں ایک تحریر سب کے نام مشترک لکھی، وہ تحریر پچھلے شمارے میں شائع ہو چکی ہے، میرے ایک عزیز طالب علم نے فرمائش کی کہ سفر کے حالات کچھ لکھ دئے جائیں ، تومیں بطور یادگار اپنے پاس محفوظ رکھوں گا۔ ان کی مرضی کی تکمیل کیلئے ارادہ ہوا کہ چند سطریں لکھدوں ، لکھنے بیٹھا تو بے ارادہ تحریر پھیلتی چلی گئی، جب مکمل ہوئی ،تو مدیر رسالہ نے اسے شائع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ یہ تحریر ایک طالب علم کے نام مکتوب ہے، وہی طالب علم اس کے مخاطب ہیں ، خدا کرے قارئین رسالہ کیلئے افادیت کا باعث بنے۔ اعجاز احمداعظمی
میں اپنے سفرِ حج کے حالات کیا تحریر کروں ، کوئی خاص بات ہو تو لکھوں ،مگر نہ میں خاص آدمی ہوں اور نہ میرا کوئی خاص حال ہے، ہاں اس سفر میں اگر کہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ قلبی اور باطنی مجاہدہ زیادہ ہوا۔اور اس کا آغاز دلی ہی سے ہوا۔ کچھ لکھتا ہوں ۔