رودادِ حرمین شریفین (۱۴۲۶ھ مطابق ۲۰۰۶ء)
بقلم: الحاج نور اﷲ صاحب دربھنگوی
مقدس ترین سفر، سفر حج کا تصور ہی سیہ کار ، گنہ گار کو لرزادیتا ہے ، پر اﷲ غفوررحیم کی عفوورحمت اسے اپنی طرف اس طرح کھینچتی ہے کہ وہ اس کے بیت اقدس تک پہونچنے کے لئے تڑپ اٹھتا ہے۔
ناچیز بھی ایک عرصہ سے فریضۂ حج ادا کرنے کیلئے بیتاب تھا ، لیکن اس گنہگار کو کسی ایسے برگزیدہ بندے اور ولی اﷲ کی ضرورت تھی جس کے طفیل اس کے گناہ معاف ہوجائیں ۔ اﷲ نے کرم فرمایا اور اپنے ایک مقبول بارگاہ بندے کی رفاقت وہمنشینی عطا فرمادی ، حضرت اقدس مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی کے ساتھ جانا طے ہوا، اسی درمیان حضرت پرپے درپے دوبار فالج کا حملہ ہوا ،اور سفر ملتوی ہوگیا ،ا ﷲنے خیرفرمایا حضرت کی صحت بحال ہوئی ، تو آرزو نے کروٹ لی اور شوق انگڑائیاں لے کر اٹھ بیٹھا، مگر دقت یہ تھی دوالگ صوبوں سے اکٹھا درخواست کیسے دی جائے، حضرت کے شاگرد حافظ عبد الجبار صاحب کے توسط سے مرکزی کوٹہ نئی دہلی میں درخواست جمع کی گئی ، حافظ صاحب نے بہت کوشش کی ، لیکن درخواست دہندگان کے ہجوم کی وجہ سے منظوری نہیں ملی ، امید وبیم کے درمیان کسی طرح درخواست ممبئی منتقل کی گئی ۔ حضرت بھی ممبئی پہونچ گئے ، میں اپنے وطن میں خوشخبری سننے کا منتظر رہا، ممبئی میں قیام کے دوران مولانا لیاقت، بھائی اسلم ، منیر بھائی اور دیگر شیدائیان حضرت کے فیوض سمیٹتے رہے ، مولانا مستقیم احسن صاحب اعظمی کی باغ وبہار شخصیت ساتھ ساتھ رہی ، حضرت نے حج کمیٹی مہاراشٹر کے چیف ایکزیکٹو عبد الرشیدملک