سال بہت ٹھنڈک لگی تھی ، اس سال بھی اندیشہ تھا ، تو بنارس کے حاجی منظور احمد صاحب کے صاحبزادوں نے ایک سلیپنگ بیگ دے دیا تھا ، اس کے ساتھ ایک ہلکا کمبل بھی تھا ، ا زہر بھائی سامانوں کے لئے ایک گاڑی لئے ہوئے تھے ، اس میں یہ سامان رکھ دیا ، بس کی تلاش میں ہم لوگ ہجوم کے اندر ادھر ادھر ہوگئے ، ہم تین آدمی یعنی مفتی عبد الرحمن صاحب ، میں اور عادل چلتے چلتے مسجد نمرہ سے دور ٹیکسیوں کے موقف پر پہونچ گئے ، بھیڑ اور شور وغل میں موبائل بھی ناکام ہورہا تھا ، بڑی دیر کے بعد معلوم ہواکہ ازہربھائی عورتوں کے ساتھ پریشان ہیں ، بس نہیں ملی ، مفتی صاحب نے ان سے کہا کہ وہ ہم لوگوں کا انتظارنہ کریں ، پھر ہم لوگوں نے ایک ٹیکسی لی اور آٹھ بجے سے کچھ پہلے مزدلفہ پہونچ گئے ، وہاں ایک جگہ رک کر مغرب اور عشاء پڑھی گئی ، پھر کنکریاں چنی گئیں ، اب رات گزارنے کامسئلہ تھا ، گو کوئی خاص ٹھنڈک نہ تھی ، مگر احرام میں بغیر کچھ اوڑھے ہوئے کھلے آسمان کے نیچے رات بسر کرنی میرے لئے مشکل تھی ، انتظام جو بڑے اہتمام سے لایا تھا ، وہ جدا ہوگیا ، حق تعالیٰ کاارادہ ہمارے تمام منصوبوں پر غالب ہے ، میں نے مفتی عبد الرحمن صاحب سے کہا کہ میرا فالج زدہ جسم اتنی ٹھنڈک کا بھی تحمل نہ کرسکے گا ، اس لئے آپ کا خیمہ جو مزدلفہ میں لگا ہوا ہے ، وہیں چلئے ، رات وہیں گزاری جائے ، اور وہیں وقوف کیا جائے ، انھیں جواز میں کوئی تردد نہ تھا ، کیونکہ مزدلفہ بروئے حدیث پورا موقف ہے ، البتہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ وقوف مزدلفہ کی جو کیفیت کھلے آسمان کے نیچے ہوتی ہے وہ بات پیدا نہ ہوگی ،میں اپنی طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے اندیشہ میں تھا کہ اگر اﷲ نہ کرے طبیعت خراب ہوگئی ، تو میں بھی پریشانی میں پڑوں گا اور رفقاء کے لئے بھی باعث تکلیف بنوں گا ، بادل ناخواستہ ہم لوگ خیموں میں آگئے، یہاں بستر وغیرہ کا خوب انتظام تھا ، ہم لوگ آرام سے سوگئے ،میں صبح صادق سے دو گھنٹے قبل اٹھ گیا ، استنجاوضو سے فارغ ہوکر میں نوافل میں مشغول ہوگیا ۔
اباحیت کا لطیفہ :
میں چند رکعتیں پڑھ چکا تھا ، دودورکعت ایک سلام سے پڑھ رہا تھا ، ایک مرتبہ