نہ تھا ۔ اب یہ دونوں باتیں قصہ پارینہ ہیں ۔ ایک حج نہیں کئی کئی حج سے سرفراز ہیں ، مگر نماز ندارد ! حج بھی کئے ہوئے ہیں ،عمرہ بھی کئے ہوئے ہیں ، مگر چہرہ نور الٰہی سے بے بہرہ ! یہ صورت حال افسوسناک ہے ، نماز فرض ہے ،داڑھی واجب ہے ، اس میں تو کبھی سستی نہیں کرنی چاہئے ، اور حج کے بعد تو اس کی اہمیت مزید ہو جاتی ہے ۔ حج سے پہلے اور عام حالات میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کا تقاضا اور امر تو ہے ہی، حج کے بعد بندوں کی طرف سے تقاضا مزید ہو جاتا ہے، کیونکہ ہمارے عرف میں اب تک یہ خیال فنا نہیں ہوا ہے کہ حاجی ہے، تو اس کا چہرہ پر نور ہونا چاھئے، اس کی مسجد آباد ہونی چاھئے۔ اور یہ بڑی ناروا جرأت ہے کہ ایک مسلمان اﷲکے امر کو بھی ٹال دے اور خلق خدا کے تقاضے سے بھی صرف نظر کرلے۔
حاجی، زیارت حرمین شریفین کر کے گھر آرہا ہے ، بہت سے لوگ استقبال کے لئے ہوائی اڈے تک گئے ہوئے ہیں ، استقبال کرنے والے حاجیوں کی گردن میں پھول مالا ڈال رہے ہیں ۔ مصافحوں اور معانقوں کے بعد دعاؤں کی درخواست کر رہے ہیں ، دعا قبول ہے، لیکن کبھی کبھی استقبال کر نے والے اتنے پہونچ جاتے ہیں کہ حاجی زحمت میں پڑ جاتاہے، ابھی سفر باقی ہے، بہت سے حاجیوں کو ہوائی اڈے سے دور اپنے وطن کو جانا ہے۔ لوگ موٹریں لے کر گئے ہیں ، کچھ کو ریل سے سفر کرنا ہے۔ اس میں چند ایک رفیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن رفقاء اتنے جمع ہو جائیں کہ اصل مسافر کسی طرح کی زحمت میں آ جائے، مناسب نہیں ہے، انتظام کی زحمت، اخراجات کی زحمت، رفقاء زیادہ ہوتے ہیں تو کبھی کبھی کسی مسئلے میں باہم کشمکش ہو جاتی ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ استقبال کرنے والے جتنے زیادہ ہوں گے، گاڑیاں جتنی زیادہ تعداد میں ہوں گی، شان ووقار میں اضافہ ہو گا۔ تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آپ نے اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے لئے سفر کیا تھا، شان ووقار جتلانا آپ کا کام نہیں ہے، شان ووقار تو صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے رہنے دیجئے۔ ہم تو سر جھکا کے گمنام بنے رہیں ، جس کو اس عبادت پر ثواب دینا ہے، وہ دیکھ رہا ہے جان رہا ہے، اس کے نزدیک ظاہری شان وشوکت کی کوئی