زندگی اور اس نئی روحانی زندگی پر آئندہ زندگی کی تعمیر کس طور پر ہو، یہ بہت ہی قابل غور اور قابل لحاظ امر ہے ، حج کے بعد دنیاوی سرمستیاں ، جاہ و مال کی حرص کوشیاں ، نفس وشیطان کے پھندوں میں گرفتاریاں ، اور کبر وغرور کی خطا کاریاں ختم ہو جانی چاہئیں ، زندگی محتاط ہو جائے ، عمل صالح ہو جائے ، قول صادق ہوجائے ، کر دار بے غبار ہو جائے ، قلب سلیم ہو جائے ، اس کا بہت اہتمام چاہئے ، آج بیت اللہ میں حاضری ہوئی ہے ، کل خود اللہ کے سامنے حاضری ہوگی ، بیت اللہ پہونچ کر سب گناہ معاف کرالئے تھے ، اللہ کے حضور پہونچیں تو کسی گناہ کا نشان نہ رہے ، یہ بات کتنی خوش نصیبی کی ہے ۔
یوں تو ہر مسلمان کو ہر وقت اپنے فرائض وواجبات ، سنن وآداب کا اہتمام رکھنا چاہئے، یہی وہ چیزیں ہیں ، جو انسان کی روح کو ترقی بخشتی ہیں ۔لیکن حج سے واپس ہونے اور حاجی بن جانے کے بعد ان کے اہتمام میں اضا فہ کر دینا چاہئے ، تا کہ زندگی کا جو ایک نیا دور شروع ہوا ہے ، ا س میں گناہوں کی آ لودگی کم سے کم ہو، اور طاعت وعبادت کی جو استعداد حرمین شریفین کی حاضری کی برکت سے پیدا ہوئی اور بڑھ گئی ہے، اس کا جمال اور اسکی رونق برقرار رہے، اس میں اضافہ ہوتا رہے۔غرض یہ ہے کہ حج کے پہلے والی زندگی اور حج کے بعد والی زندگی میں عمدہ اور پسندیدہ فرق آجانا چاہئے ، اگر پہلے دینداری میں کمی تھی، تو اب بڑھ جانی چاہئے، اور اگر ماشاء اﷲپہلے سے موجود تھی، تو اب ا س میں ترقی ہونی چاہئے ۔
اب سے کچھ عرصہ پہلے ، جب سفر خاصا دشوار اور طویل المدت ہوتا تھا، آ دمی یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی حج کرکے آئے اور چہرے پرداڑھی نہ ہو، یاوہ نمازی نہ ہو ،حج کے ارادے کے ساتھ داڑھی چھوڑدی جاتی تھی ، اور نمازوں کی پابندی کا اہتمام ہونے لگتا تھا ، بڑی عجیب بات تھی کہ حاجی داڑھی منڈاہو ، یا بے نمازی ہو ، بعض لوگ جونماز کو اپنے اوپر گراں سمجھتے تھے ، وہ باوجود صاحب حیثیت و ثروت ہونے کے اس لئے حج سے کتراتے تھے کہ حاجی ہونے کے بعد نماز کی پابندی کرنی پڑے گی ۔ میں حج سے کترانے کی تحسین نہیں کرتا ، بلکہ حج کے بعد نمازی ہونا ایک ایسا لازمی امر تھا کہ اس کے بغیر حاجی ہونے کا تصور ہی