میں نے میدان عرفات میں دیکھا ہے کہ بادشاہ کی طرف سے کاغذ کے ڈبوں میں دوپہر کا کھانا تقسیم ہو رہا تھا ، معلم کے کارندے ایک ایک ڈبہ ایک ایک حاجی کو دے رہے تھے۔ مگر بعض بعض حاجی کئی کئی ڈبے حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، تقسیم کرنے والے کارندے حرام حرام کا نعرہ لگاتے رہے ، مگر لوگ اس سے بے نیاز جبراً کئی کئی ڈبے حاصل کرتے رہے ۔ ایک قافلہ خاموش تھا ، اس نے سرے سے ڈبہ حاصل کرنے کاارادہ ہی نہیں کیا ،تو بعد میں کارندوں نے خود لاکر ان کے پاس ڈبوں کاڈھیر لگا دیا ، جتنا مقدر ہے اتنا پہونچ کر رہے گا ۔ ایسی جگہوں پر اور عبادت کی ان حالتوں میں حرص و ہوس کا مظاہرہ ناپسندیدہ تر ہے۔
اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ اعمال و مناسک کی ادائیگی میں لوگوں کی نقل نہ کی جائے ، بلکہ مسائل کی تحقیق کرکے ان پر عمل کیا جائے ۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے ۔ ایسا بہت دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک شخص نے غلطی سے یا اتفاقاً کوئی کام کرلیا تو پیچھے والے وہی کرنے لگتے ہیں ۔ طواف کے آداب میں یہ ہے کہ سر جھکا کر خشوع وخضوع کے ساتھ طواف کرے ، دوران طواف خانہ کعبہ کی طرف دیکھتے رہنا ممنوع ہے۔ ہاں رکن یمانی پر پہونچے یاحجر اسود پر تو استلام کرلے ۔ لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ بعض لوگ ناواقفی کی وجہ سے دوران طواف بے موقع ہاتھ اٹھاتے ہیں اور اس طرح اٹھاتے ہیں جیسے کسی کو سلام کر رہے ہوں ۔ ایک نے ہاتھ اٹھایا تو پیچھے والے بہت سے لوگ ہاتھ اٹھا دیتے ہیں ۔ گویا یہ بھی آداب طواف میں ہے، بعض لوگ مقام ابراہیم پر ہاتھ لگاتے ہیں ، پھر دیکھنے والے آآکر اسے ہاتھ لگاتے ہیں ۔ حالانکہ یہ بے اصل بات ہے ۔ اس طرح کی غلطیاں بہت ہوتی ہیں ۔
قربانی کا انتظام وہاں حکومت کے زیر اہتما م ہو تا ہے ، مگر چونکہ اس کے اہل انتظام ہر مسلک والے لوگوں کی رعایت نہیں کرتے، اس لئے بالخصوص احناف کو چاہئے کہ حج تمتع اور قران کے شکرانے میں جو قربانی کی جاتی ہے ، وہ خود کریں ، اس میں قدرے مشقت تو ہوتی ہے ، مگر بقدر مشقت ثواب بھی توہے ، اس میں غفلت نہ کریں ، اپنے ہاتھ سے