سے حاجی جمع ہوتے ہیں ، مختلف طبیعتوں کے، مختلف رنگوں کے، ان میں سب پڑھے لکھے نہیں ہوتے ، اور نہ سب عاقل و فرزانہ ہوتے ہیں ، کسی کو کچھ کرتے دیکھ کر اس کی نقل نہ کریں بلکہ معتبر علماء سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کریں ۔ ہر حاجی اپنے دیار کے کسی عالم کو تلاش کرلے اور ضرورت پڑنے پر اسی سے مسئلہ پوچھے اور عالم کی بھی ذمہ داری ہے کہ خوب تحقیق کرکے جواب دے۔ اور اگر بروقت کوئی عالم نہ مل سکے تو مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں جاکر وہاں کے علماء سے مسئلہ دریافت کریں ، بعض علماء وہاں مسائل میں تساہل برتتے ہیں ۔ ان سے مسائل میں رجوع نہ کریں ۔ حرم شریف میں جو لوگ تقریریں کرتے ہیں اور درس دیتے ہیں وہ احناف کے مسائل کی رعایت نہیں کرتے ، ان سے مسائل دریافت کرکے تشویش میں نہ پڑیں ۔ ان میں بعض حضرات احناف کے خلاف مسائل کی تقریریں کرتے ہیں اور احناف پر رد کرتے ہیں ۔ ان سے دھوکہ نہ کھائیں ۔ احناف کے نزدیک جو مسائل ہیں وہ مضبوط دلائل کی بنیادوں پر قائم ہیں ۔ کسی وسوسہ میں نہ مبتلا ہوں ۔
ایک بات اور بھی بہت قابل اہتمام ہے ، سعودیہ عربیہ ماشاء اللہ صاحب ثروت ملک ہے ۔ حکومت سے لیکر ایک عام سطح کا انسان سب مالدار ہیں ، اور دل بھی کھلا رکھتے ہیں ، حج کے موقع پر بلکہ عام حالات میں بھی زائرین حرم کی خدمت کو یہ لوگ سعادت عظمیٰ سمجھتے ہیں ۔ اور مختلف انداز سے خدمت کرتے ہیں ، بہت سے اہل خیر کھانے پینے کی اشیاء مفت تقسیم کرتے ہیں کہ غرباء و مساکین کا بھلا ہو ، بعض لوگ گاڑیاں بھر بھر کر بوتلوں میں پانی لاتے ہیں ۔ پلاو ٔ بریانی تیار کرکے تھیلیوں میں بھر بھر کرتقسیم کرتے ہیں ، کچھ حضرات دہی ، چھاچھ اور پھل وغیرہ بانٹتے پھرتے ہیں ۔ یہ سب چیزیں گاڑیوں میں بھر کر جب تقسیم کیلئے آتی ہیں ، تو کچھ لوگ ان پر اس طرح ٹوٹتے اور گرتے ہیں ، جیسے اسی کے لئے آئے ہوں ، ہزاروں روپئے خرچ کرکے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں ، مگر تھوڑی تھوڑی چیزوں کیلئے حرص کا اس طرح مظاہرہ کرتے ہیں ، جیسے گداگروں کی جماعت ہو ، حاجی کو اپنے کام اور اپنے مقصد پر جما رہنا چاہئے ، مقدر کی چیز تو خود چل کر آئے گی۔