ہیں وہ اس کی جانب ہاتھ بلند کر کے اپنے ہاتھوں کو چوم کر آتش شوق کو تسکین دے رہے ہیں ،کیا ہے اس کالی عمارت میں ؟اور کیا ہے اس کالے پتھر میں ؟نہ کوئی ظاہری حسن،نہ کوئی آرائش،نہ کوئی زیبائش،نہ رنگ و نورکی بارش ،نہ برقی قمقمے،جدید دور کی خوبصورت اشیاء سے عاری یہ عمارت جو فن تعمیر کا شاہکار بھی نہیں ہے ،آخر کیوں اس قدر حسین معلوم ہوتی ہے کہ لوگ اس کے حسن کے سحر میں کھوئے جارہے ہیں پروانے کی طرح اس کے گرد چکر لگا رہے ہیں ،بظاہر سنگ و خشت سے بنی ہوئی ایک چوکور عمارت سے زیادہ اس کی کیا حیثیت ہے ؟یہ ظاہر بینوں کی نگاہ دیکھ رہی ہے اہل باطن بتلائیں گے کہ اس سنگ و خشت کی کیا حیثیت ہے؟ اس عمارت کی نسبتیں کتنی ارفع ہیں ؟قبلہ یہی ہے،اولین معبدیہی ہے،معبود کی تجلیات کا مہبط یہی ہے،سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کا مسکن یہی ہے،نبی آخرالزماں ا کی بعثت گاہ یہی ہے ،مسلمانوں کی اجتماعیت اور یکسانیت کا مظہر یہی ہے ، اس کے علاوہ عظیم ہستیوں اور بڑی حیثیتوں کا ایک لا متناہی سلسلہ اس عمارت کے ساتھ جڑا ہواہے،ان عظیم نسبتوں کے بعد اس عمارت کے لئے ظاہری ٹیپ ٹاپ کیا معنی رکھتی ہے؟ ویسے بھی اس عمارت کا حسن سر کی آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے نظر آتا ہے ۔
طواف کے لئے ہم لوگ بھی اس انسانی سیلاب میں شامل ہو گئے،زندگی کی پہلی عبادت تھی ،اس سے پہلے اس نوع کی عبادت نہیں کی تھی،کچھ بیت مکرم کی ہیبت ،کچھ نا تجربہ کاری،کچھ حواس باختگی،اور کچھ انسانوں کا سیل رواں ،یہ سب چیزیں مل جل کر ایسی ذہن پر مسلط ہوئیں کہ جو کچھ طواف کے متعلق ایاز نے پڑھا تھا وہ صاف دل سے نکل گیا،وہ تو خیر خدا کا شکر ہے کہ والد صاحب کی راہنمائی شامل حال تھی ورنہ نہ جانے کیا کچھ کر جاتا ، بہرحال والد صاحب کا ساتھ ہونے کی وجہ سے معاملہ قا بو سے باہر نہیں ہوا،حجر اسود سے دور ہونے کی وجہ سے استیلام کے لئے ہری لائٹ کا سہارا لینا پڑا،ہری لائٹ کے سامنے پہونچ کر اللہ اکبر کہتے ہوئے استیلام کیا ،اور زندگی کی پہلی عبادت یعنی طواف شروع ہوا،بیچ میں والد صاحب،بائیں طرف راشد بھائی اور دائیں طرف میں ،والد صاحب سر جھکائے رمل