نیچی رکھتے تھے،چودہ سو سال پہلے کفار کی کافری یہ تھی اور آج چودہ سو سال بعد مسلمانوں کی مسلمانی کا یہ عالم ہے کہ عین کعبہ کے سر پر ستر منزل کی عمارت مسلط کردی ہے ۔
مکہ میں مختلف سڑکوں سے گزرنے کے بعد بس ایک جگہ رکی ،بس میں سوار دوسرے حضرات کی یہ منزل تھی ،ہما رے قافلہ کی منزل ابھی آگے تھی،ہمارا معلم اور مکتب نمبر دوسرا تھا،لہٰذا یہاں ایک معرکہ سامان کی منتقلی کا در پیش تھا،سامان دوسری بس میں منتقل کرکے منزل کی طرف بڑھے ،معلم کی آفس کے سامنے بس رکی معلم کے کا رندوں نے ضروری کاروائیوں کی خانہ پری کی ،شناخت نامہ اور رات کا کھانا دے کر قیام گاہ کی طرف روانہ کیا ،رات کے تقریباً نو بجے ہم لوگ قیام گاہ پہونچے،نماز پڑھی کھانا کھایا،تھکے ہوئے تھے یہ طے کر کے کہ صبح عمرہ کے لئے جائیں گے ،سو گئے۔
ہماری قیام گاہ محلہ عزیزیہ میں تھی جو حرم شریف سے کئی کلو میٹر کی مسافت پر ہے ، منتظمین نے بس کی سہولت مہیا کر رکھی تھی جس کی وجہ سے آمد و رفت میں خاصی سہولت تھی،کمرہ سے نکلے سامنے بس کھڑی ہے سوار ہوئے اور روانہ ہوگئے ،کبھی کبھار دس پانچ منٹ بس کے بھر نے کا بھی انتظار کرنا پڑتا تھا۔
دوسرے دن فجر کی نماز ادا کر نے کے بعد عمرہ کے لئے حرم شریف روانہ ہوئے ، مسجد حرام میں باب فہد سے داخل ہوئے ایک سیڑھی اترے،دوسری اترے ،تیسری اترے تو سامنے خانہ کعبہ کی پر عظمت عمارت نظر آئی،اطمینان قلب کے ساتھ بغیر ہاتھ اٹھائے دعائیں مانگی ،اور خانہ کعبہ کے دیدار میں محو ہو گئے،لوگ دیوانہ وار اس کے ارد گرد چکر لگا رہے تھے ، کوئی بلند آواز سے دعائیں پڑھ رہا ہے تو کوئی زیر لب دعائوں کا ورد کررہا ہے،ہرایک اپنے حال میں مست،ہر ایک اپنی الگ دنیابسائے اپنے معبود سے مناجات میں لگا ہوا ہے ، انسانوں کا ایک سیلاب اس کالی عمارت کے سحر میں کھویا ہوا بہہ رہا ہے،ہر شخص کی نگاہ اس کالی عمارت کے کالے پتھر پر مرکوز ہے،ہر شخص اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کو چومنے کی خواہش دل میں لئے گزر رہا ہے،جن کو میسر ہے وہ ہونٹوں سے چوم رہے ہیں اور جو دور