کرتے ہوئے چلے جارہے ہیں ،میں اس خیال سے کہ والد صاحب کو دھکا نہ لگے دائیں ہاتھ کو کہنی سے موڑ کر دفاعی پوزیشن میں چل رہا تھا،تیسرے شوط میں والد صاحب نے میری اس حرکت کو دیکھا تو فوراً منع کیا کہ اس حالت میں کسی کو دھکا لگنے اور ایذاء پہونچنے کا اندیشہ ہے ،طواف تقریباً چالیس منٹ میں پورا ہوا ،اس کے بعد مطاف سے نکل کر دو رکعت نماز ادا کی گئی،اور سعی کے لئے مسعی کی طرف چل پڑے،سعی کی پہلی منزل پر پہونچے ،والد صاحب کے لئے وہیل چیئر کا انتظام تھا ،سعی کا طریقہ ،دعائیں اور ضروری ہدایات کے بعد راشد بھائی والد صاحب کو لیکر وہیل چیئر والے حصہ کی طرف چلے گئے،اور ہم لوگ سعی کے پیدل والے حصے میں پہونچے ،بیت اللہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوئے ،عمرہ کے سعی کی نیت کی، دعا پڑھی اور سعی کی ابتداء کی،مسعی کے ابتدائی حصہ میں تھوڑی دور چلنے کے بعد ہری لائٹ لگی ہوئی ہے،وہاں سے دوسری ہری لائٹ تک حقیقتاً سعی کی جاتی ہے یعنی دوڑا جا تا ہے ،طبعاً مجھ کو بھاگ دوڑ سے مناسبت نہیں ہے لیکن یہاں چند قدم ہی سہی دوڑنے میں جو لطف آیا ،اس پر ہزاروں آرام قربان کیا جاسکتا ہے،سعی میں مسلسل پیدل چلنے کی وجہ سے کبھی غفلت بھی طاری ہوجاتی ،مگر میلین اخضرین کے پاس آکر ساری غفلت کافور ہو جاتی ،کیوں کہ یہاں اس بے تاب ماں کی انتہائی بے تابی کو اپنے اوپر طاری کرنا ہوتا ہے،جس کا بچہ پیاس سے تڑپ رہا تھا،اس وقت اس ماں پر کیا گزری ہوگی اس کا اندازہ وہی ماں لگا سکتی ہے جس کا اکلوتا بچہ موت و زیست کے درمیان پڑا جھوجھ رہا ہو ،بچہ کی تڑپ اور ماں کی بے تابی رنگ لائی اور خالق کائنات کے حکم سے بچہ کی ایڑی نے وہ کام کیا جس کے لئے مزدور مہینو ں محنت کرتے ہیں ،ایک بچہ کی ایڑی میں کتنی طاقت ہوتی ہے؟لیکن جب رب السموات والارض کا حکم ہوا تو اسی ناتواں ایڑی کی ضرب نے ہزاروں کدال کا کام کیا،زمین کے جس حصے نے اس نازک پائوں کے لمس کو محسوس کیا اپنی چھاتی چیر کر اس پیاسے بچے کے قدموں میں پانی کا چشمہ انڈیل دیا،اس چشمہ صافی سے آج تک سوائے محدود ایام کے متواتر ہزاروں تشنہ لب سیراب ہوچکے ہیں ،اور تا قیامت اپنی تشنہ لبی دور کرتے رہیں گے،مشہور ہے رحمت خدا