کے لئے محبت ازحد ضروری ہے،جب ساری کار فرمائی محبت ہی کی ہے تو اظہار محبت سے روکنا کہاں کی عقل مندی ہوگی،لیکن ان نام نہاد محافظین شریعت کو کون سمجھائے۔
مدینہ منورہ کے قیام کا آخری دن معمول کے مطابق گزرا،عشاء کی نماز کے بعد اصل مسجد نبوی میں تھوڑی دیر تلاوت کی،صلوۃ التوبہ پڑھی،اور درود وسلام کے لئے حاضر ہوا،روضہ اقدس اور مسجد نبوی سے جدائیگی کا احساس شدید تھا،آنسوآنکھوں سے رخسار پر ڈھلک رہے تھے،اور دل یہ سوچ کربیٹھا جا رہا تھا کہ یہ آخری حاضری ہے ،کل اس دربار پاک سے رخصت ہونا ہے،وہیں ستون سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا،اور ٹکٹکی باندھے روضہ پاک کو دیکھتا رہا،سوچا جی بھر کے زیارت کرلوں ،کم و بیش آدھ گھنٹہ کھڑا درود وسلام پڑھتا رہا،لیکن وہ محبت ہی کیا جس کی کوئی انتہا ہو،وہ دل کیسا جو روضہ پاک کی زیارت سے سیراب ہوجائے،بڑی مشکل سے رخصتی سلام پڑھ کر واپس لوٹنے کے لئے پلٹا،تھوڑی دور چلا تھا کہ محبت نے جوش مارا ہوش سنبھلا تو اپنے آپ کو اسی ستون کے پاس کھڑا پایا،رویا ، گڑگڑایا،معافی مانگی،توبہ کیا،کچھ وعدے کئے،کچھ دعائیں مانگی،شفاعت کی درخواست کی،دوبارہ حاضری کی اجازت چاہی،الوداعی سلام پڑھا،اور دل کو قابو کرتے ہوئے واپس لوٹا،دروازہ کے قریب پہونچا ،اچانک دل بے قابو ہوگیا،اور پھر ستون کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا،اب کی مرتبہ خوف کا احساس ہو رہا تھا،سوچ رہا تھا کہ بار بار آنا کہیں سوء ادب نہ ہو،لیکن جدائیگی کا غم اور محبت کی شدت سنبھلنے نہیں دے رہی تھی،تھوڑی دیر کھڑا رہااور آخری سلام یہ سوچ کر پڑھا کہ ادب لازم ہے،بار بار آنے میں بے ادبی اور تکلیف کا امکان ہے، اس مرتبہ چلا جائوں گا،واپسی کے لئے پلٹا تو پائوں زمین میں جمے ہوئے سے محسوس ہو رہے تھے،آہستہ قدم سے چلتا ہوا دروازہ سے باہر نکل کر صحن میں کھڑا ہوگیا،تھوڑی دیر گنبد خضراء کو دیکھتا رہا اور پھر مسجد کے حدود سے باہر نکل گیا،اس وقت دل پر جو بیت رہی تھی اس کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے زبان و قلم سے بیان کرنا حیطہ قدرت سے باہر ہے۔
٭٭٭٭٭