لوٹے،یہی معدودے چند قبریں تھیں جن کی حتمی طور نشاندہی حافظ صاحب کرسکے،بقیہ کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی،پھر بھی مجموعی طور پر ایک حد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اس کے اندر کی قبریں پرانے لوگوں یعنی صحابہ،تابعین ،تبع تابعین کی ہیں ،اس حد میں جدید تدفین عمل میں نہیں آتی،انھوں نے مزید بتلایا کہ ترکوں کے زمانے میں قبروں پر کتبے لگے ہوئے تھے،مگر نجدیوں نے اپنے دور حکومت میں سارے کتبے نکلوادئے،نہ جانے کس خدشہ کے تحت انھوں نے ایسا کیا ہے۔
جنت البقیع سے نکلتے ہوئے گیٹ پر ایک دل خراش منظر دیکھنے میں آیا،کچھ سر سید نما داڑھی والے ،جبہ و عقال میں ملبوس کھڑے عربی اور اردو میں تقریریں کر رہے تھے اور لوگوں کو زیارت قبور سے منع کررہے تھے،اب ان کو کون سمجھائے کہ مسلمانوں کو جنت البقیع کی زیارت سے روکنا ان کو ماضی کے ایک قیمتی سر مائے سے محروم کرنا ہے،ان سے کون پوچھے کہ جب نبی کریم انے قبروں کی زیارت کی اجازت دی ہے توآپ کس حق کی بنیاد پر لوگوں کو منع کررہے ہیں ،آدمی جب عبادت اور محبت کے فرق کو نہیں سمجھتا تو اسی طرح کی حرکتیں اس سے سرزد ہوتی ہیں کوئی بھی مسلمان جنت البقیع ،غار حرا،یاغار ثور کی زیارت کے لئے جاتا ہے تو محض محبت میں جاتا ہے نہ کہ صاحب غار یا صاحب قبر کی عبادت کے لئے ،لیکن یہ لوگ عبادت سمجھ کر اس سے لوگوں کو روکنا شروع کر دیتے ہیں ،ان لوگوں کے دل میں محبت کے جذبات ہوں کہ نہ ہوں لیکن اور مسلمانوں کو جن کو واقعۃً اپنے محسنین سے محبت ہے ان کو محبت کے اظہار سے روک کر ان کے دل کو ٹھیس نہیں پہونچانا چائیے،ویسے بھی کون سی عبادت ہے جو محبت سے خالی ہے،انسان کے قلب میں محبت ہی وہ واحد جذبہ ہے جو محبوب کی ناراضگی کا خوف پیدا کرتا ہے،عابد اپنے معبود کے سامنے پیشانی اور ناک اسی لئے تو رکھتا ہے کہ اس کو اپنے معبود سے محبت ہے،امتی اپنے رسول کی سنتوں کا اتباع اسی جذبہ سے تو کرتا ہے کہ اس کو اپنے رسول سے محبت ہے،عبادت سے اگر محبت منہا کردی جائے تو محض عبادت کا ڈھانچہ بچے گا ،روح مفقود ہوجائے گی،ڈر سے آدمی عبادت تو کرسکتا ہے لیکن روح عبادت