پہونچنے کی وجہ سے ہم پر طرح طرح کی جو آزمائشیں آرہی ہیں ہم اس سے بچ جاتے اور دنیا و آخرت ہر دو جگہ سرخرو ہوتے۔
مسجد نبوی سے پورب کی جانب مسجد کے احاطہ سے لگ کر جنت البقیع واقع ہے،جس میں بنات رسول ،ازواج مطہرات،اجلہ صحابہ،تابعین،تبع تابعین،محدثین کرام اور فقہائے عظام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین آرام فرما ہیں گویا کہ اسلام کے درخشاں ستاروں کا پورا ایک دبستان آباد ہے،ملت اسلامیہ کا عظیم سرمایہ اس خاک پاک کی امانت ہے،اس قبرستان سے تمام مسلمانوں کے عقیدت و جذبات وابستہ ہیں ،اس کی مٹی اوڑھ کر سونے کی خواہش تمام مسلمانوں کے دل میں مچلتی ہے،ہر مسلمان کے دفن کی خواہش کی تان یہیں آکر ٹوٹتی ہے ،ایسا کیوں نہ ہو نیکوں کی صحبت بذات خود نیکی کے مترادف ہے۔
احب الصالحین ولست منہم
لعل اللّٰہ یرزقنی صلاحاً
جنت البقیع کا گیٹ چوبیس گھنٹے میں دو گھنٹہ کے لئے فجر کے بعد کھولا جاتا ہے،مدینہ منورہ کے قیام کے آخری دن حافظ محمد دلشا د صاحب کے ساتھ حاجی محمد نعمان صاحب اور میں جنت البقیع کی زیارت کے لئے گئے،لوگ جوق در جوق اس دبستان علم و آگہی ،خزانہ زہد و تقوی میں داخل ہو رہے تھے،ہجوم میں ہم لوگ بھی شامل ہوگئے اور اندر پہونچے،گیٹ میں داخل ہونے کے معاً بعد حافظ دلشاد صاحب نے بائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے بتلایا کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی قبر ہے،دل فرط عقیدت میں امنڈ پڑا،آگے بڑھے تو آپس میں ملی ہوئی دو قبروں کی نشان دہی کرتے ہوئے حافظ صاحب نے بتلایا کہ یہ امام مالک اور امام نافع رحمۃ اللہ علیہما کی قبر ہے،سلام و فاتحہ کے بعد آگے بڑھے تو خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی زیارت سے مشرف ہوئے، امنڈتے ہوئے آنسووں کے سیلاب کو ضبط کرتے ہوئے تھوڑی دیر قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھتے رہے،پھر متفرق قبروں کی زیارت کرتے ہوئے واپس