روائی نہیں بلکہ خدائے رسول سے مانگنا ہوتا ہے،کاش حکومت اس کی طرف توجہ کرتی ،اس ذات کے سامنے جس نے تصویر سازی کو حرام قرار دیا ہے لوگوں کو کیمرہ بازی کی جسارت سے روکتی،کاش امت اپنے رسول فداہ ابی وامی کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے اس بے ادبی اور عمل کے اکارت کردینے والے کام سے بازآجاتی ،کاش اے کاش ایسا ہوجاتا تو ہم لوگ ایک بڑے گناہ اور نقصان سے بچ جاتے،دنیا اور عقبی دونوں جگہ اس کا نفع پاتے۔
روضہ اقدس کی جالی سے متصل گیلری نماایک مختصر سی جگہ ہے ،جس میں پولیس کے لوگ کھڑے رہتے ہیں ،اور کبھی کبھی پولیس والوں کے ساتھ جبہ،قبہ،ٹوپی،اور سر سید نما داڑھی والے بھی نظر آتے ہیں ،بظاہر ان کا کام حرمت رسول کی پاسبانی ،افراتفری اور بھگدڑ سے روک تھام ہے،لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد حرمت کے پاسبان خود سنت رسول کے قاتل ہیں ،چہرے سے داڑھی غائب،پتلون پہنے کھڑے ہیں ،جس کی دربانی کر رہے ہیں اسی کی نافرمانی بھی کر رہے ہیں ،اس پر مستزاد یہ کہ یہ لوگ مستقل ہذا حرام،یا اﷲ رح، کانعرہ بلند آواز سے لگاتے رہتے ہیں ،کیا ان کی مستقل چیخ و پکار سوء ادب کے زمرہ میں نہیں آتی؟کیا اس سے حضورا کو تکلیف نہیں پہونچتی ہوگی؟یہ کام زبان کی حرکت کے بجائے ہاتھ پائوں کی حرکت سے نہیں کیا جاسکتا؟جیسا کہ حرم مکی اور مطاف وغیرہ کی پولیس کرتی ہے،حکومت نہ جانے کیوں ایسا کررہی کہ در رسول کی دربانی کے لئے ایسے لوگو ں کو متعین کر رکھا ہے جن سے خوشی حاصل ہونے کے بجائے جناب رسالت مآب ا کی طبیعت مکدر ہوجائے،پتلون گرچہ پولیس کا یونیفارم ہے ،لیکن کیا در رسول کے لئے ان کا یونیفارم بدلا نہیں جا سکتا؟درِ رسول کی پولیس کوفاسقوں کا لباس پہنانے کے بجائے صلحاء کے لباس کا یونیفارم بنانے میں کیا حرج ہے؟وہاں غیروں کی شکل و صورت والوں کو کھڑا کرنے کے بجائے شرعی شکل و صورت کے لوگوں کو متعین نہیں کیا جا سکتا؟اسلام میں ستر پوشی کا حکم ہے نہ کہ ستر نمائی کا،اور پتلون کے بارے میں سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ ساتر سے زیادہ غماز ہوتا ہے،اے کاش حکومت کی توجہ کوئی اس جانب مبذول کراتاتو سرور کائنات اکو تکلیف