ایک برقی لہر سی دوڑ گئی،دل و دماغ انتہاء مسرت سے جھوم اٹھے،راشد بھائی نے بتلایا کہ یہ مسجد نبوی شریف کا مینار ہے،پانی تو نہیں مل سکا لیکن مسجد نبوی کے مینار کی زیارت ضرور حاصل ہو گئی۔
دوسرے دن فجر کی نماز کمرے میں ادا کی گئی،ناشتہ وغیرہ سے فراغت کے بعد غسل کیا ،کپڑے بدلے،اور ظہر کی نماز کے لئے مسجد نبوی کی طرف روانہ ہوئے،قیام گاہ سے مسجد کی مسافت پیادہ پا تقریباً پندرہ منٹ کی تھی،راستہ چلتے ہوئے دل و دماغ میں عجیب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، نوع بنوع کے خیالات کا ہجوم تھا ،کبھی سوچتا کیا واقعی میں مسجد نبوی میں ظہر کی نماز ادا کرنے جا رہا ہوں یا محض واہمہ اور خواب ہے؟کیا میرے جیسا گنہگار ،سیہ کار ،سراپا معصیت بھی مسجد نبوی کی پاک فضا میں سانس لینے کا مستحق ہے؟کیا میں اس مسجد میں نماز کی ادائیگی کا مجاز ہو سکوں گا جس کی فضیلت مسجد حرام کے بعد سب سے زیادہ ہے؟کیا میں اس لائق ہوں کہ اس پاک سرزمین کے مکین کی قدم بوسی کا شرف حاصل کروں ؟جہاں اچھے اچھوں کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں ،کس منہ سے روضہ پاک پر حاضری دوں گا؟کس زبان سے صلوۃ و سلام کا نذرانہ پیش کروں گا؟کیا میرا منہ،میری زبان ،میرا معصیت آلود جسم اس قابل ہے کہ اس بارگاہ پاک میں باریابی حاصل کرسکے؟کہیں ایسا نہ ہو کہ ناکام و نامرادلوٹا دیا جائوں ،میری سیہ کاری میری بد بختی کا سبب نہ بن جائے،اگر ایسا ہوا تو کیا کروں گا کہاں جائوں گا؟پھر معاً خیال آتا ہے کہ آپ تو رحمۃ للعالمین ہیں ،آپ کا وجود ساری امت ساری دنیا کے لئے رحمت ہے،آپ کی ذات عفو و در گرز ،رحم و کرم سے عبارت ہے،آپ تو وہ بحررحمت ہیں جس میں غوطہ لگانے سے ناپاک وجود پاک ہوجاتا ہے اور سمندر کی پاکی میں کوئی فرق نہیں آتا، انھیں منفی و مثبت خیالات کے ساتھ مسجد پہونچا،ظہر کی نماز ادا کی ،سنتوں سے فراغت کے بعد بیٹھا تھا دل پر ایک ہیبت طاری تھی،خوف وہراس،مسرت و شادمانی کے ملے جلے جذبات موجزن تھے،اتنے میں والد صاحب نے پوچھا حاضری کے لئے کب جائوگے؟اتنا سننا تھا کہ آنکھیں بے اختیار بھیگ گئیں ،دل ودماغ بالکل ساکت و منجمد