فلائٹ کی تاریخ آج سے تین دن بعد کی متعین ہو گئی ہے،کل ہی مدرسہ سے گھر کے لئے روانہ ہو جائو،میں دوسرے دن رخصت کی ضروری کا روائیوں کو پورا کر کے بذریعہ نو چندی لکھنو اور لکھنو سے غریب نواز اکسپریس سے اعظم گڑھ پہونچ گیا۔
ہماری فلائٹ لکھنو سے تھی ،ایک دن گھر گزار کر دوسرے دن ظہر کی نماز کے بعد والدہ،بھائیوں ،بہنوں ،اساتذہ اور احباب سے مل کر کیفیات اکسپریس سے لکھنو کے لئے روانہ ہوئے،ہمارا قافلہ چھ نفوس پر مشتمل تھا ،والد صاحب ،بڑے بھائی مولوی محمدراشد، حاجی محمد نعمان صاحب،ان کی اہلیہ اور حاجی فضل حق صاحب،حاجی فضل حق صاحب محض والد صاحب کی محبت اور تعلق خاطر کی بنا پر لکھنو پہونچانے جا رہے تھے،ہمارا قافلہ بخیر و خوبی گیارہ بجے رات میں لکھنو اسٹیشن پہونچاجہاں پہلے سے جناب محمدعارف صاحب اور ان کے کچھ ساتھی ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے،ان کے ساتھ ان کے گھر پہونچے،رات وہیں قیام کیا ،دوسرے دن بارہ بجے کے قریب حج ہائوس کے لئے روانہ ہوئے،وہاں پہونچ کر معلوم ہوا کہ ہم لوگوں کی فلائٹ مغرب کے بعد ہے،عصر کی نماز سے کچھ قبل سامان جمع کرنے کے لئے قطار میں کھڑے تھے کہ وہیں ڈاکٹر محمد اسلم صاحب سے ملاقات ہوئی جواپنے والدین کے ساتھ حج پر جارہے تھے۔
مغرب کی نماز سے قبل ضروری کاروائیوں کے بعد ہم لوگوں کو حج ہائوس سے بذریعہ بس ایر پورٹ کے لئے روانہ کر دیا گیا،ایر پورٹ پر مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی اس کے بعد جہاز پر سوار ہو گئے،جہاز رن وے کی چکنی سڑک پر تھوڑی دیر پھسلتا رہا اس کے بعد فضا میں تیرنے لگا،تقریباً پانچ گھنٹے کی اڑان کے بعد ہم لوگ مدینہ ایر پورٹ پہونچے جہاں رات کے بارہ بج رہے تھے،ایر پورٹ کی کاروائیوں کے بعد سامان سے لدے پھندے معلم کی بس کے پاس پہونچے ،اور ایک گھنٹہ انتظار کے بعد بس قیام گاہ کی طرف روانہ ہوئی،قیام گاہ پہونچنے کے بعد پیاس کا احساس ہوا پانی کی تلاش میں باہر نکلے ،رات کے دو بج رہے تھے ہر طرف سناٹا تھا ،چلتے چلتے اچانک نگاہ ایک روشن مینار پر پڑی،پورے جسم میں