خشوع وخضوع رہا، مولانا خود ہمراہ تھے اس لئے بڑی تقویت تھی ، عشا سے پہلے طواف سے فارغ ہوئے ، اس کے بعد سعی کا مرحلہ تھا وہ بھی بسہولت مکمل ہوا، پھر کھانا کھایا گیا ، اس میں رات کے بارہ بج گئے ، حضرت مولانا بہت تھک گئے تھے ، اس لئے صبح منیٰ واپسی ہوسکی۔ تیسرے روز کی رمی کرکے عصر بعد منیٰ سے نکلے اور ہجوم کا وہ عالم تھا کہ گاڑیاں رینگ رینگ کر چل رہی تھیں ، کسی طرح تین چار گھنٹے میں چھ سات کلومیٹر کی مسافت طے کرکے دس بجے قیام گاہ پر پہونچے ، بعض لوگوں نے بتایا کہ وہ لوگ رات دوبجے کے بعدقیام گاہ پر پہونچ سکے۔
اﷲ کا بے انتہا فضل وانعام رہا کہ حج کے تمام مراحل نہایت سہولت اور خیروخوبی کے ساتھ ادا ہوگئے ، منیٰ سے واپسی کے تیسرے یاچوتھے دن واپسی تھی ، ان دنوں میں اس قدر ہجوم تھا کہ عمرہ تو دور کی بات ہے ایک ہی دو طواف کی نوبت آسکی ۔ حج کے بعد ایک روزہمارے دوست مفتی فیض احمد اعظمی کے بھائی الحاج شہنواز صاحب جو ہمارے ہی محلہ میں تھے تمام رفقاء کی دعوت کی ، حسن اتفاق سے حضرت مولاناکے محب ومحبوب دوست قاری شبیر احمد صاحب دربھنگوی مدظلہ بھی اس روز ملاقات کیلئے آگئے ، ان کو بھی لے کر دعوت میں گئے موصوف نے خاصا اہتما م کیا تھا ، جزاہ اﷲ احسن الجزا
آخر وہ دن بھی آہی گیا جب اذن رحیل سنا دیا گیا ،اور ۴۵؍دن کا یہ مبارک سفر اپنے اختتام کو پہونچا، حرم میں جاکر دورکعت نماز ادا کرکے خوب الحاح وزاری سے دعاکی اور دوبارہ حاضری کی التجا کے ساتھ واپس ہوا، بس آگئی سامان رکھا گیا اور بادیدۂ نم بلد امین مکہ مکرمہ سے جدہ کیلئے روانہ ہوئے، ایرپورٹ پہونچ کر عجب افراتفری کا منظر سامنے آیا، معلوم ہواکہ فلائٹوں کا نظام حددرجہ ابتر ہے، دوروز پہلے سے موجود عازمین حج ابھی تک وطن نہیں جاسکے ہیں ، یہ سن کر قدرے پریشانی ہوئی ، ہم لوگوں کی فلائٹ دوسرے دن تھی ، میں فوراً ایر انڈیا کے دفتر میں گیا اور معلومات کیں ، بتایا گیا کہ کچھ دقتیں جن کی وجہ سے نظام گڑبڑ چل رہا ہے ، ہم لوگوں کے قابو سے باہر یہ دقتیں ہیں ، میں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن ایرپورٹ پر جو حجاج بے یار ومددگار پڑے ہیں ان کے لئے کھانے پینے اور دیگر سہولیات کو بہم پہونچانا