یہ تو آپ کے قابو سے باہر نہیں ہے، تو جو آپ کرسکتے ہوں وہ کیجئے ، انھوں نے کھانے کے ٹوکن تقسیم کئے جس کی وجہ سے یہ دقت ختم ہوئی، میں چند لوگوں کے ساتھ مسلسل ایر انڈیااور حج مشن کے دفتر والوں سے رابطہ میں تھا ، پہلے سے موجود حجاج کو شہر میں ہوٹل میں بھیج دیا گیا اور ہم لوگوں کی فلائٹ وقت سے پندرہ سولہ گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوگئی ، عشا کے بعد یہ مژدہ سنایا گیا کہ آج ہی رات میں ایک بجے آپ لوگوں کی فلائٹ ہے،عشا بعد سامان لے کر لائن میں لگ گئے اور سامان لگیج کراکے ویٹنگ ہال میں آئے اور تھوڑی دیر میں بس کے ذریعہ جہاز تک پہونچائے گئے ، جدہ ایرپورٹ پر حج کے زمانے میں رن وے پر اتنی تعداد میں مختلف ممالک کے جہاز ہوتے ہیں کہ ہمارے بڑے شہروں میں روڈویز پراتنی بسیں بھی نہیں ہوتی ہیں ، دوبجے کے قریب ہمارا جہاز فضا میں بلند ہوا، نیچے جدہ شہر کی روشنیاں بہت بھلی معلوم ہورہی تھیں ، کچھ دیر سوئے صبح جہاز شارجہ پہونچا ، یہاں ڈیڑھ گھنٹہ رکنے کے بعد بنارس پہونچا ، یہاں کے وقت کے مطابق ۱۲؍بجے ہم لوگ لال بہادر شاستری ایرپورٹ پر اترگئے ، ایرپورٹ سے نکلتے نکلتے پونے ایک بج گیا، باہر آئے تو گھر کے لوگ استقبال کیلئے موجود تھے ، انہیں دیکھ کر دل بھرآیا، خصوصاً اپنے پانچ سالہ بچے عزیزی احمد ضیاء سلّمہ کو دیکھ کر، اسے اٹھاکر سینے سے لگالیا، سب لوگوں سے مصافحہ ومعانقہ کیا، حضرت مولانا کے محب مخلص حاجی منظور صاحب تو حج میں تھے ، ان کے لائق فرزند گرامی حاجی محمد صالح اپنے بھائیوں کے ساتھ وافرمقدار میں کھانا لے کر موجود تھے ، ظہر کی نماز پڑھی گئی ، کھانا کھایا گیا ،پھر گھر کیلئے روانہ ہوئے ، عشاکے وقت گھر پہونچا ، سب کو منتظر پایا، اﷲ کا شکر ہے کہ سبھی لوگ بخیر وعافیت تھے، سب کے لئے دعا کی، مصافحہ کیا، اپنے بچے عزیزی محمود ضیاء سلّمہ کو جو ابھی تقریباً گیارہ ماہ کا تھا گود میں لیامحسوس ہواکہ اس عرصہ میں میری صورت اسے فراموش ہوچکی تھی، اجنبیوں کی طرح مجھے تکتا رہا۔ ۲۹؍اکتوبر کو گھر سے نکلے تھے اور ۱۶؍دسمبر کو بعافیت تمام گھر پہونچے ، اﷲ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس سفرمبارک کو قبول فرمائے ۔آمین
٭٭٭٭٭