یہاں اعلان کے مطابق ایک گھنٹہ رکنا تھا لیکن ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہی یہاں سے مدینہ کیلئے روانگی ہوسکی، اس دوران ہم لوگ پرندوں کی طرح طیارے کے پنجرے میں قید رہے ، شارجہ کے وقت کے مطابق ساڑھے چار بجے پرواز ہوئی ، جہاز سمندر کے اوپر اوپر اڑتا رہا ، نیچے سمندر میں جہاز بطخوں کی طرح تیرتے نظر آرہے تھے ، جگہ جگہ سمندر میں بادل کے ٹکڑے ایسے لگ رہے تھے جیسے چٹانیں ہوں ۔ غروب آفتاب کے وقت اعلان ہوا کہ ہم لوگ آدھے گھنٹے میں مدینہ انٹر نیشنل ایر پورٹ پر اتر جائیں گے، مدینہ منورہ کے وقت کے مطابق ہمارا جہازپونے چھ بجے اتر گیا، دس پندرہ منٹ میں امیگریشن کی کاروائی سے فارغ ہوکر ایرپورٹ سے باہر نکل آئے ، ایر پورٹ سے نکلنے سے پہلے ایک صاحب پولیو کی دوا لے کر آئے کہ اس کا پینا لازمی ہے ، خدا جانے اس کے پلانے پر اتنا اصرار کیوں تھا اوراس میں صحت وتندرستی کا کون سا راز مضمر تھا ، ہندوستان میں بھی یہی معاملہ پیش آیا تھا ، یہ دوا بہت بدمزہ ہوتی ہے ، ہم نے تو اسے تھوک دیا، لیکن اتنی دیر میں ہی منہ کا ذائقہ بدل گیا۔
ایر پورٹ کے باہر آنے کے بعد معلم کے کارندوں نے پاسپورٹ جمع کرلیا اور بتایا کہ اب یہ واپسی میں جدہ میں ملے گا ۔ ہم لوگ بس میں سامان سمیت بٹھادئے گئے اور بے بسی کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹہ اسی میں بیٹھے رہے،بس آٹھ بجے چلی اور آدھ گھنٹہ میں مسجد نبوی شریف کے شمال مشرق میں ایک ہوٹل ’’ قصر المرسیٰ‘‘ کے سامنے آکر رک گئی ، معلوم ہوا کہ یہی ہم لوگوں کی قیام گاہ ہے۔ کاؤنٹر پر آئے تو پانچویں منزل پر کمرہ نمبر 504کی کنجی ملی اور کھانے کا پیکٹ، کمرے میں آنے کے بعد سب سے پہلے عصر ، مغرب اور عشا کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔ فلائٹ میں مسلسل آٹھ گھنٹہ بیٹھنے کی وجہ سے تکان کا بہت اثر تھا اس لئے طے پایا کہ صبح مسجد نبوی میں حاضری دی جائے۔
٭٭٭٭٭
صبح سوا دو بجے کے قریب سبھی لوگ بیدار ہوگئے اور نہا دھوکر چار بجے حضرت مولانا کی معیت میں مسجد میں پہونچے ، مسجد کے حسن وجمال کا کیا کہنا ؟نگاہیں دل سمیت خود بخود