عبرتناک واقعہ پیش آگیا ،اب بھی اس کو سوچتا ہوں تو طبیعت ہل جاتی ہے۔ ایک حاجی صاحب کا پاسپورٹ امیگریشن کے بعد نہ جانے کہاں گم ہوگیا ، اس کی تلاش میں پونے بارہ بج گئے ،حج کمیٹی کے عملے اور ایر پورٹ کے عملے میں تلخ کلامی بھی ہوئی ، ان حاجی کے گروپ میں ان کے علاوہ تین آدمی اور تھے ، پاسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے کوئی بھی اس فلائٹ سے نہ جاسکا ، ان بے چاروں کے دل پر جو گزرنا تھی گزر گئی میرے دل پر اس واقعہ کا بہت اثر ہوا کہ نہ جانے کتنے ارمانوں کے ساتھ یہ لوگ آئے ہوں گے،دلوں میں کس قدر ولولہ اور شوق ہوگا سب سے مل ملا کر آئے ہوں گے اب کیسے واپس جائیں گے؟ اور اب نہ جانے کتنے دنوں اور انتظار کرنا ہوگا ،یہ سب خیالات دل میں آتے رہے۔آخر ان کا پاسپورٹ نہ ملا اور انھیں رکنا پڑا۔ اسی دوران ظہر کا وقت ہوگیا تو ہم لوگوں نے ظہر کی نماز وہیں ادا کی اور ۱۲؍ بجے جہاز میں سوار ہوئے اور سوابارہ بجے جہاز نے پرواز کی۔ تھوڑی دیر میں کھانا پیش کیا گیا ، کھانے کے بعد ہم لوگوں نے تین تین سیٹوں کو برتھ کی شکل بناکر باقاعدہ سوگئے ، جہاز کی پچھلی نشستیں خالی تھیں اس لئے خوب آرام سے سوئے ، میں تو تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر لکھنے لگا اور لوگ سوتے رہے ۔ یہ سفر بالکل گونگا تھا ، اس لئے کہ کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ ہم لوگ اس وقت کس شہر سے یا کس جگہ سے گزر رہے ہیں ،ورنہ عام طور سے ہوائی سفر میں اس کا اعلان ہوتا رہتا ہے یا اسکرین پر سفر کی تازہ ترین صورتحال لکھ کر باخبر کیا جاتا رہتا ہے ، دو تین گھنٹے کے بعد جہاز سمندر کے اوپر سے گزرا ، سمندر ختم ہونے کے بعد جیسے ہی صحرائی علاقہ شروع ہوا ، جہاز ہچکولے کھانے لگا ، اعلان ہوا کہ ہم لوگ انتہائی خطرناک طوفان سے گزررہے ہیں ، آپ لوگ بیلٹ باندھ لیں ، دس پندرہ منٹ تک یہی کیفیت رہی ، عجب سراسیمگی پیداگئی ،ایسا محسوس ہوا جیسے جہاز اب گرا تب گرا، جہاز کے اندر کی سرخ لائٹیں جل گئیں ، اﷲ نے رحم فرمایاکچھ دیر کے بعد صورتحال اعتدال پر آئی ۔اعلان ہوا کہ اب ہم شارجہ انٹرنیشنل ایرپورٹ پر اتر رہے ہیں ، اس وقت ہندوستانی وقت کے مطابق پانچ بج رہے تھے ، ہم لوگ پونے پانچ گھنٹے میں بنارس سے شارجہ پہونچے۔